منگل 2 جمادی ثانیہ 1446 - 3 دسمبر 2024
اردو

شرعا مستثنى كردہ غرض كے علاوہ كتے پالنے كى حرمت

69777

تاریخ اشاعت : 04-08-2007

مشاہدات : 11198

سوال

گھروں ميں كتے ركھنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مسلمان شخص كے ليے كتا پالنا جائز نہيں، ليكن اگر اسے شكار يا جانوروں يا كھيتى كى ركھوالى كے ليے كتے كى ضرورت ہو تو وہ ركھ سكتا ہے.

امام بخارى رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے كتا ركھا اس كے اجروثواب ميں سے روزانہ ايك قيراط كمى ہو جاتى ہے، ليكن كھيتى يا جانوروں كے ليے ركھے گئے كتے كى بنا پر نہيں "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 2145 ).

اور امام مسلم رحمہ اللہ نے ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ سے ہى بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى شكار اور جانور، اور كھيتى كے علاوہ كسى اور غرض كے ليے كتا پالا تو اس كے اجروثواب ميں سے يوميہ دو قيراط كمى ہو جاتى ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2974 ).

اور امام مسلم نے ہى عبد اللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى جانوروں، يا شكار كے علاوہ كتا پالا تو اس كے اجر و ثواب سے يوميہ ايك قيراط اجر كم ہوتا رہتا ہے "

عبد اللہ بيان كرتے ہيں كہ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ نے فرمايا: يا كھيتى كى ركھوالى كے ليے ركھے گئے كتے كے علاوہ "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 2943 ).

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

اس حديث ميں شكار، اور جانوروں كى ركھوالى اور اسى طرح كھيتوں كى ركھوالى كے ليے كتا ركھنے كى اباحت بيان كى گئى ہے.

اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" بلا شبہ فرشتے اس گھر ميں داخل نہيں ہوتے جس گھر ميں كتا اور تصوير ہو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3640 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

چنانچہ يہ احاديث كتا پالنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہيں، صرف اسى غرض اور مقصد كے ليے كتا ركھنا جائز ہے جو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مستثنى كيا ہے.

ايك اور دو قيراط اجروثواب كم ہونے والى احاديث ميں جمع كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.

ايك قول يہ ہے كہ: اگر كتا زيادہ اذيت ناك ہو تو اس كا اجر دو قيراط يوميہ كم ہوگا، اور اگر اس كى اذيت كم ہو تو پھر ايك قيراط يوميہ كم ہو گا.

اور ايك قول يہ ہے كہ: نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے پہلے يہ بتايا كہ يوميہ ايك قيراط كمى ہوتى ہے، پھر اس سزا كو زيادہ كرتے ہوئے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے دو قيراط كمى بيان كى، تا كہ كتا ركھنے ميں اور بھى زيادہ نفرت پيدا ہو.

اور قيراط كى مقدار اللہ تعالى كو معلوم ہے، اس سےمراد يہ ہے كہ اس كے عمل كے اجر سے مقرر حصہ كمى ہوتى ہے.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 10 / 342 ) اور فتح البارى ( 5 / 9 ).

رياض الصالحين كى شرح ميں شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كتا ركھنا اور انسان كے ليے كتا پالنا حرام ہے، بلكہ يہ كبيرہ گناہ ميں شامل ہوتا ہے، كيونكہ جو شخص مستثنى كردہ مقصد كے علاوہ كتا پالتا ہے اس كے اجر ميں سے دو قيراط يوميہ كمى ہوتى ہے ....

اور اللہ تعالى كى حكمت يہ ہے كہ خبيث اشياء خبيث لوگوں كے ليے ہى ہيں، اور خبيث لوگ خبيث اشياء كے ليے ہيں، كہا جاتا ہے: كہ مشرق و مغرب ميں يہود و نصارى اور كيمونسٹ قسم كے كفار افراد ميں سے ہر ايك نے كتا پال ركھا ہے، جسے وہ ہر اپنے ساتھ ركھتا ہے، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے، اور وہ اسے روزانہ صابن اور دوسرى اشياء كے ساتھ صاف كرتا ہے! حالانكہ اگر اسے وہ سارے سمندر كے پانى اور پورى دنيا كے صابن سے بھى دھوئے تو وہ پاك نہيں ہوگا! كيونكہ اس كى نجاست عينى ہے، اور نجاست عينيہ يا تو اسے تلف كر كے پاك ہوتى ہے، يا پھر مكمل طور پر زائل ہو كر.

ليكن يہ اللہ تعالى كى حكمت ہے اللہ كى حكمت ہے كہ يہ خبيث لوگ اس سے ہى مالوف ہوتے ہيں جو خبيث ہو، جيسا كہ يہ شيطان كى وحى سے مالوف ہوتے ہيں؛ كيونكہ ان كا يہ كفر شيطان كى جانب سے ہى وحى اور اس شيطان كا حكم ہے، اس ليے كہ شيطان انہيں فحاشى اور برائى كا حكم ديتا ہے.

انہيں كفر و ضلالت كا حكم ديتا ہے، تو يہ كفار شيطان كے غلام اور خواہشات كے بندے ہيں، اور يہ اس ليے بھى خبيث ہيں كہ خبيث اشياء سے ہى مالوف ہوتے ہيں.

اللہ تعالى سے ہم دعا كرتے ہيں كہ وہ ہميں اور انہيں ہدايت نصيب فرمائے " انتہى.

ديكھيں شرح رياض الصالحين ( 4 / 241 ).

دوم:

كيا گھروں كى ركھوالى كے ليے كتا پالنا جائز ہے ؟

جواب:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے صرف تين مقصد اور غرض كے ليے كتا پالنا استثناء كيا ہے، اور وہ درج ذيل ہيں:

شكار كے ليے.

جانوروں كى ركھوالى كے ليے.

كھيتوں كى ركھوالى كے ليے.

بعض علماء كرام كا مسلك ہے كہ ان تين اسباب كے علاوہ باقى اسباب كے ليے كتا پالنا جائز نہيں ہے.

اور باقى علماء كرام كا كہنا ہے كہ: ان تين مقاصد پر قياس كرتے ہوئے ان جيسے اور اسباب كے ليے بھى كتا ركھنا اور پالنا جائز ہے، كيونكہ اگر جانوروں كى ركھوالى، اور كھيتوں كى ركھوالى كے ليے كتا پالنا جائز ہے تو پھر گھروں كى ركھوالى كے ليے كتا پالنا بالاولى جائز ہوا.

امام نووى رحمہ اللہ مسلم كى شرح ميں كہتے ہيں:

" كيا گھروں، اور راستوں وغيرہ كى ركھوالى كے كتے پالنا جائز ہيں ؟

اس ميں دو قول ہيں:

پہلا: احاديث كے ظاہر كى بنا پر جائز نہيں، كيونكہ احاديث ميں كھيتى، يا جانوروں كى ركھوالى اور شكار كے علاوہ كسى اور غرض كے ليے كتا پالنے كى صريحا ممانعت ہے.

اور ان دونوں اقوال ميں تينوں پر قياس، اور احاديث سے سمجھ ميں آنے والى علت ضرورت پر عمل كرتے ہوئے جواز والا قول زيادہ صحيح ہے " انتہى.

ديكھيں: شرح مسلم للنووى ( 10 / 340 ).

امام نووى رحمہ نے گھر كى ركھوالى كے ليے كتا ركھنے كے جواز كو صحيح قرار ديا ہے، شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى صحيح مسلم كى شرح ميں اسے صحيح كہا ہے:

صحيح يہ ہے كہ گھروں كى حفاظت كے ليے كتا ركھنا جائز ہے، اور جب كسى منفعت مثلا شكار كے ليے كتا پالنا جائز ہے، تو پھر كسى نقصان اور ضرر كو دور كرنے اور اپنى حفاظت كے ليے بالاولى جائز ہوا " انتہى.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب