اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

فقہى مذاہب اور عقدى فرقوں كا فرق اور بدعتى سے شادى كرنا

69836

تاریخ اشاعت : 16-04-2012

مشاہدات : 6394

سوال

اہل سنت اور دوسرے مذاہب ( مثلا شافعى مالكى حنفى حنبلى وغيرہ ) ميں كيا فرق ہے ؟
اور كيا اہل سنت و الجماعت كى لڑكى كسى دوسرے مذہب كے مرد سے شادى كر سكتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مالكى شافعى حنفى اور حنبلى اہل سنت والجماعت كے مدمقابل نہيں بلكہ ان كے مقابلہ ميں تو عقيدہ كى گمراہى اور بدعتى فرقے مثلا اشعرى اور متعزلہ اور ماتريدى و مرجئۃ اور صوفى وغيرہ آتے ہيں.

حنفى مالكى اور شافعى و حنبلى تو فقہى مدارس ہيں، اور ان كے آئمہ كرام اہل سنت و الجماعت ميں شامل ہوتے ہيں بلكہ يہ آئمہ كرام تو اہل سنت كے قائد ہيں.

ليكن افسوس يہ ہے كہ ان فقہى مذاہب كے اكثر پيروكاروں نے آج عقائد ميں اہل بدعت ضلالت كى پيروى كرنا شروع كر دى ہے، اس طرح اكثر شافعى اور مالكى اشعرى بن چكے ہيں، اور اور اكثر احناف ماتريدى مسلك اختيار كر چكے ہيں، اور حنبلى لوگ غير اہل سنت كے عقائد اختيار كرنے سے بچے ہيں، بلكہ ان ميں بھى كچھ نے غلط طريقہ اختيار كر ليا ليكن ا نكى تعداد بہت كم ہے.

اصل ميں تو مسلمان شخص كو صحابہ كرام رضوان اللہ عليہم اجمعين كى سمجھ و فہم كے مطابق كتاب اللہ اور سنت رسول صلى اللہ عليہ وسلم پر عمل كرنا چاہيے، رہا ان چار مذاہب يا كسى دوسرے مذہب كى پيروى كرنا مندوب اور واجب نہيں، كسى بھى مسلمان شخص كو ان مذاہب ميں سے كسى ايك معين مسلك كى اتباع نہيں كرنى چاہيے، بلكہ جو شخص ہر مسئلہ ميں كسى معين مسلك اور كسى ايك مسلك كى اتباع كرتا ہے تو وہ غلطى پر ہے، اور وہ متعصب كہلائيگا اور وہ اندھى تقليد كر رہا ہے " انتہى

ھل المسلم ملزم باتباع مذہب معين من الذاہب الاربعۃ للمعصومى صفحۃ نمبر ( 38 ).

اگر كسى مسلمان شخص كے پاس كتاب و سنت سے احكام استنباط كرنے كا علم نہيں تو مذاہب اربعہ كى پيروى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، ليكن جب اس كے سامنے كتاب و سنت كى دليل آ جائے اور اس كے مذہب كے خلاف مسئلہ معلوم ہو جائے تو پھر اسے كتاب و سنت پر عمل كرتے ہوئے اپنا وہ مسلك ترك كر كے كتاب و سنت كے مطابق عمل كرنا ہو گا.

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اللہ سبحانہ و تعالى نے قرآن مجيد ميں انبياء و رسل كو چھوڑ كر اپنے آباء و اجداد كے دين كى پيروى كرنے كى مذمت كى ہے اور يہى تقليد ہے جسے اللہ تعالى اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حرام كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے مقابلہ ميں رسول كى مخالفت كرتے ہوئے كسى اور كى اتباع كى جائے.

اور پھر مسلمانوں كا اتفاق ہے كہ ايسا كرنا ہر كسى كے ليے حرام ہے، كيونكہ اللہ خالق كى مخالفت ميں كسى بھى مخلوق كى اطاعت نہيں كى جائيگى، اور پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى تو ہر خاص و عام پر ہر وقت اور ہر دور ميں اس كے پوشيدہ اور اعلانيہ سب حالات ميں فرض ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى كتاب قرآن مجيد ميں تقريبا چاليس مقام پر سب لوگوں كے ليے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى اطاعت و فرمانبردارى فرض كى ہے.

استدلال كرنے سے عاجز شخص كے ليے جمہور علماء كرام كے ہاں تقليد كرنى جائز ہے، اور ايسى تقليد جس ميں اللہ اور اس كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان كى نافرمانى ہوتى ہو وہ نص اور اجماع كے مطابق حرام ہے، چاہے يہ مخالفت كرنے والى كوئى بھى شخص ہو اس كى بات نہيں مانى جائيگى " انتہى

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 19 / 260 - 266 ).

سلف صالحين كے اتباع و پيروكار وہى لوگ ہيں جنہوں نے اپنے عقائد و فقہ اور سلوك ميں كتاب و سنت پر استقامت اختيار كى اور كتاب و سنت سے جو كچھ ثابت ہے اس كى كہيں بھى مخالفت نہ كى اور امت كے سلف كے اجماع پر عمل كيا.

شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" سلفى مذہب سے مراد وہ مسلك ہے جس پر ا سامت كے سلف صحابہ كرام اور تابعين عظام اور آئمہ كرام تھے، صحيح عقائد اور منھج سليم اور ايمان صادق شرعى اور ادبى اور سلوك اور عقيدہ كے اعتبار سے جس پر صحابہ كرام تھے، اور بدعتى و منحرف قسم كى جماعتوں اور افراد كے خلاف سلفى منھج كہلاتا ہے.

آئمہ اربعہ كے منھج كى دعوت دينے والوں ميں سب سے واضح شيخ الاسلام ابن تيميہ اور ان كے تلاميذ اور شيخ محمد بن عبد الوہاب اور ان كے تلاميذ اور ہر مصلح اور مجدد شامل ہے جس سے كوئى زمانہ خالى نہيں رہا.

انہيں اہل سنت و الجماعت كا نام دينے ميں كوئى حرج نہيں تاكہ منحرف مذاہب اور منھج سليم كے درميان فرق كيا جا سكے، اور يہ نام دينا تزكيہ نفس نہيں كہلاتا، بلكہ يہ اہل حق اور اہل باطل كے مابين امتياز كى نشانى ہے " انتہى

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 ) سوال نمبر ( 206 ).

اس بنا پر اگر كسى مسلمان عورت كے ليے كوئى ايسا رشتہ آئے جس كا اخلاق اور دين پسنديدہ ہو تو اسے وہ رشتہ قبول كر لينا چاہيے چاہے وہ ان مذاہب اربعہ ميں سے كسى كى طرف بھى منسوب نہ ہو.

ليكن اگر اس كے ليے آنے والا رشتہ كسى گمراہ فرقے كى طرف منسوب ہو تو پھر اسے وہ رشتہ قبول نہيں كرنا چاہيے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب