الحمد للہ.
خاوند كو بيوى كے رشتہ داروں كے ساتھ حسن اخلاق كا مظاہرہ كرنا چاہيے اور خاص كر ساس كے ساتھ تو اچھے اخلاق اور حسن سلوك كا مظاہر كيا جائے؛ كيونكہ اس كے نتيجہ ميں خاوند اور بيوى كے مابين محبت و الفت پيدا ہوتى ہے، اور ازدواجى زندگى ميں بھى ٹھراؤ و استقرار پيدا ہوتا ہے.
كيونكہ بيوى كى والدہ كى عزت و تكريم حقيقت ميں بيوى اور اپنى اولاد كى نانى كى عزت و تكريم كہلاتى ہے، اور ساس كى بےعزتى اس كى بيوى اور اولاد كى بےعزتى تصور كى جائيگى، اور حسن معاشرت سے خارج كہلائيگى جس ميں اللہ نے صلہ رحمى كا حكم ديا ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو النساء ( 19 ).
اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى ہے:
اور ان عورتوں كے بھى اسى طرح حقوق ہيں جن طرح ان پر ہيں اچھے طريقہ سے، اور مردوں كو ان عورتوں پر فضيلت حاصل ہے، اور اللہ تعالى غالب و حكمت والا ہے البقرۃ ( 228 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم ميں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہے، اور ميں تم سب ميں سے اپنے گھر والوں كے ليے بہتر ہوں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 3895 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1977 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح ترمذى ميں حسن قرار ديا ہے.
ذرا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے حال پر تو غور كريں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم خديجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى وفات كے بعد ان كى سہيليوں كى عزت و تكريم كيا كرتے تھے، جو اس كى تاكيد ہے كہ بيوى كے عزيز و اقارب اور رشتہ داروں كى عزت و تكريم كرنى چاہيے، كيونكہ اس ميں بيوى كى عزت و تكريم ہے.
امام مسلم رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:
" ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى بيويوں ميں سے خديجہ رضى اللہ تعالى عنہا كے علاوہ كسى پر غيرت نہيں كھائى حالانكہ ميں نے خديجہ رضى اللہ تعالى عنہا كو پايا بھى نہيں.
عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ جب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم بكرى ذبح كرتے تو فرمايا كرتے:
يہ خديجہ كى سہيليوں كو بھيجو، عائشہ بيان كرتى ہيں كہ ميں نے ايك دن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا ناراض كر ديا اور كہنے لگى:
خديجہ ؟ تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے:
" يقينا مجھے خديجہ كى محبت سے نوازا گيا ہے "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 2435 ).
مسلم شريف كى دوسرى حديث ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا بيان ہے كہ:
" خديجہ رضى اللہ تعالى عنہا كى بہن ہالہ بنت خويلد رضى اللہ تعالى عنہا نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آنے كى اجازت طلب كى تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو خديجہ رضى اللہ تعالى عنہا كا اجازت طلب كرنا ياد آگيا تو اس سے آپ صلى اللہ عليہ وسلم خوش ہوئے، اور فرمانے لگے: اے اللہ ہالہ بنت خويلد "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 3427 ).
رہا مسئلہ گالى نكالنے اور آواز بلند كرنے كا تو يہ چيز حسن اخلاق كے بھى منافى ہے، بلكہ يہ تو گناہ كا باعث بنتى ہے اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كو گالى نكالنا جائز نہيں.
اسى طرح بائيكاٹ كرنا اور كسى سے قطع تعلقى كرنے سے بھى شريعت اسلاميہ منع كرتى ہے.
صحيح بخارى اور مسلم ميں ابو ايوب انصارى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" كسى بھى مسلمان شخص كے ليے حلال نہيں كہ وہ اپنے مسلمان بھائى سے تين راتوں سے زائد ناراض رہے، وہ دونوں مليں تو ايك دوسرے سے اعراض كرليں، اور ان دونوں ميں اچھا اور بہتر وہى ہے جو سلام كرنے ميں ابتدا كرنے والا ہے "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 6077 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2560 ).
اس بنا پر اس شخص كو چاہيے كہ وہ اللہ كا ڈر اور تقوى اختيار كرتے ہوئے اپنى بيوى اور اس كے رشتہ داروں سے اچھا اور بہتر سلوك كرے، تا كہ ان دونوں ميں محبت و الفت اور انس پيدا ہو، اور اللہ تعالى اس كے اہل و عيار اور گھر ميں بركت عطا كرے.
واللہ اعلم .