اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

حصص كى زكاۃ كا تفصيلى بيان

سوال

گزارش ہے كمپنيوں كے حصص ميں زكاۃ كے متعلق تفصيلات فراہم كريں كہ آيا اس ميں زكاۃ ہے يا نہيں، اور اس كى مقدار كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

السھم: شيئر حصص والى كمپنى كے راس المال ميں حصہ كو كہا جاتا ہے جيسا كہ معروف ہے كہ اس حصہ دار كا ثابت شدہ حق ہے.

ديكھيں: الاسھم والسندات ( 47 ) موسوعۃ المصطلحات الاقتصاديۃ والاحصائيۃ ( 775 ).

حصہ كمپنى كے منافع سے پيدا ہوتا ہے جو كمپنى كى كاميابى اور اس كے منافع ميں كمى يا زيادتى كے تابع ہوتے ہوئے كم يا زيادہ ہوتا رہتا ہے، اور خسارہ اور نقصان ميں سے بھى اپنا حصہ برداشت كرتا ہے، كيونكہ حصہ كى ملكيت كمپنى كے ايك حصہ كى ملكيت ہے، جو اس حصہ كى مقدار كے مطابق ہوتى ہے.

حصہ يا سھم كى قيمت:

حصص كى كئى ايك قميتيں ہيں جو ذيل ميں بيان كى جاتى ہيں:

1 - اسمى قيمت: يہ وہ قيمت ہے جو كمپنى كى تاسيس كے وقت حصہ كى مقرر كى جاتى ہے، اور يہ حصص كى سند ميں بيان كى گئى ہے.

2 - كاغذى قيمت: يہ وہ قيمت ہے جو كمپنى كے التزامات كو نكال كر، اور اس كى اصل كو صادر شدہ حصص ميں تقسيم كر كے بنتى ہے.

3 - حصہ كى حقيقى قيمت:

يہ وہ مالى قيمت ہے كہ اگر كمپنى كو ختم كيا جائے اور اسے موجودہ حصص ميں تقسيم كرنے پر قيمت بنے.

4 - ماركيٹى قيمت:

يہ وہ قيمت ہے جس ميں ماركيٹ كے اندر وہ حصص فروخت ہوتے ہيں اور يہ مانگ اور پيشكش كے اعتبار سے بدلتى رہتى ہے.

اور يہ حصص لوگوں كے مابين لين دين اور تعامل كے قابل ہيں، جس طرح باقى سامان ہے، جسے بعض لوگ خريد وفروخت كا سامان بناتے ہيں، تا كہ اس سے منافع حاصل كر سكيں.

سوال نمبر ( 4714 ) كے جواب ميں يہ بيان ہو چكا ہے كہ جب كمپنى كوئى حرام اشياء كا كام نہ كرتى ہو تو اس كے حصص كى خريدو فروخت كرنے ميں كوئى حرج نہيں ہے.

كمپنى كے حصص كى زكاۃ كس طرح ادا كى جائے؟

بعض حصہ دار تو حصص كا كاروبار منافع كى غرض سے كرتے ہيں، اور بعض لوگ حصص كو آمدن كے ليے حاصل كرتے ہيں نہ كہ اس كا كاروبار كرنے كے ليے.

پہلى قسم كے افراد كے ہاں تو يہ حصص تجارتى مال شمار ہونگے، اور ايكسچينج ميں لين دين، تو اس طرح اس كا حكم تجارتى سامان كا ہو گا، تو اس كى زكاۃ ہر سال كے آخر ميں اس كى قيمت كے اعتبار سے حاصل كى جائے گى.

اور دوسرى قسم ميں عصر حاضر كے محقيقين اور ريسرچ كرنے والے علماء كرام كا اختلاف ہے، اور اس ميں ان كے ہاں تو بينادى چيزيں ہيں:

اول: اسے كمپنى كى نشاط اور كام كے قطع نظر تجارتى سامان شمار كيا جائے.

ان كا كہنا ہے كہ اس كا مالك بالكل اسى طرح منافع حاصل كرتا ہے جس طرح كوئى تاجر اپنے سامان سے منافع حاصل كرتا ہے، تو اس اعتبار سے يہ تجارتى سامان ہوا.

اور يہ قول اصل ميں اس پر مبنى ہے كہ اب صنعتى آلات اور سامان ميں زكاۃ ہے، كيونكہ ـ ان كے ہاں ـ اسے اموال نامى يعنى بڑھنے والا سامان شمار كيا جاتا ہے.

اور اس قول كو محمد ابو زھرہ، عبد الرحمن بن الحسن، اور عبد الوھاب خلاف وغيرہ نے اختيار كيا ہے.

دوسرى وجہ:

ان حصص كو صادر كردہ كمپنى كى قسم كو ديكھتے ہوئے ان حصص كے حكم ميں فرق كرنا.

يہ جمہور معاصر علماء كا قول ہے، اگرچہ وہ بعض تفصيلات كے اندر آپس ميں اختلاف كرتے ہيں.

ان حصص كمپنيوں كو چار قسموں ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے:

اول:

صرف صنعتى كمپنياں جو تجارتى اعمال نہيں كرتيں، جيسا كہ رنگوں، ہوٹلنگ، اور مواصلات كى كمپنياں ہيں، تو ان كے حصص ميں زكاۃ نہيں ہے كيونكہ ان كے حصص كى قيمت آلات اور مشينوں اور عمارتوں اور سامان ميں ہوتى ہے، جو ان كے استعمال كى لازمى اشياء ہيں، اور ان اشياء ميں كوئى زكاۃ نہيں، بلكہ ان حصص كے منافع ميں زكاۃ ہو گى ليكن وہ اس وقت جب نصاب كو پہنچے اور سال پورا ہو جائے.

دوم:

خالصتا تجارتى كمپنياں.

سوم:

تجارتى و صنعتى كمپنياں.

وہ خالص تجارتى كمپنياں جو بغير كسى تحويل كے سامان كى خريدو فروخت كرتى ہيں، مثلا امپورٹ ايكسپورٹ كمپنياں، اور خارجى تجارت كى كمپنياں.

اور صعنعى و تجارتى كمپنياں جو كہ صنعت اور تجارت دونوں كا كام كرتى ہيں، مثلا وہ كمپنياں جو خام مال نكالتى ہيں، يا وہ خام مال خريد كر اس ميں كچھ تبديلى كر كے اسے فروخت كرتى ہيں، مثلا پٹرول كمپنياں، اور بننے اور كاتنے والى كمپنياں، اور سٹيل و لوہے كى كمپنياں، اور كيمائى مواد كى كمپنياں وغيرہ.

يہ دونوں قسم كى كمپنياں ( خالص تجارتى، اور تجارتى و صنعتى كمپنياں) ان كے حصص ميں سے عمارتوں اور آلات و مشينرى كى قيمت نكال كر اس كمپنى حصص ميں زكاۃ واجب ہو گى.

اور عمارتوں، آلات اور مشينرى وغيرہ كى قيمت سالانہ بجٹ كى طرف رجوع كيا جا سكتا ہے.

چہارم:

زراعتى كمپنياں، يعنى جن كمپنيوں كا زراعتى كام ہو.

تو اس ميں كھيتى اور پھل كى زكاۃ ہو گى ـ اگر تو وہ اس ميں سے ہو جس ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے ـ تو ہر حصہ دار كے حصہ كو ديكھا جائے گا كہ اس كے مقابلے ميں كھيتى اور پھل كتنے آتے ہيں، تو حصہ كے مالك پر زكاۃ واجب ہو گى، اگر تو وہ قيمتا سيراب نہيں كرتا ہے تو اس ميں عشر ہو گى، اور اگر قيمتا سيراب كرتا ہے تو اس ميں نصف عشر ہو گى، ليكن شرط يہ ہے حصہ دار كا حصہ نصاب كو پہنچے جو كہ تين سو ( 300 ) صاع ہے.

يہ اس وجہ پر مبنى ہے كہ فيكٹرياں اور عمارتيں مثلا ہوٹل اور گاڑياں وغيرہ ميں زكاۃ نہيں بلكہ ان كے منافع ميں زكاۃ ہے جبكہ وہ نصاب تك پہنچے اور اس پر سال گزر جائے، جس كا بيان سوال نمبر ( 74987 ) كے جواب ميں گزر چكا ہے.

اور يہ دوسرا قول زيادہ صحيح ہے، كيونكہ حصہ كمپنى كا ايك جزء ہے تو زكاۃ ميں اس كا حكم بھى كمپنى جيسا ہى ہو گا، چاہے وہ كمپنى صعنتى ہو يا تجارتى يا زراعتى.

اس قول كو شيخ عبد الرحمن عيسى نے اپنى كتاب " المعاملات الحديثۃ و احكامھا " اور شيخ عبد اللہ البسام اور ڈاكٹر وھبۃ الزحيلى نے مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 742 ) ميں اختيار كيا ہے.

اور بسام نے ذكر كيا ہے كہ تجارتى اور صنعتى كمپنيوں كے مابين فرق كرنا جمہور علماء كا قول ہے.

ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 725 ).

تنبيہ:

اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ صنعتى يا زراعتى كمپنيوں كے خزانے نقدى اموال سے خالى نہيں ہوتے، اور ان اموال ميں زكاۃ واجب ہونے ميں كوئى اشكال نہيں، لہذا اس نقدى كا اندازہ لگايا جائے گا كہ ايك حصہ كتنے كے برابر ہے، اور حصہ دار كے مالك كے ذمہ اس كى زكاۃ نكالنا ہو گى، اگر وہ اكيلا حصہ نصاب كو پہنچے يا حصہ كے مالك كے پاس موجود نقدى كو ملا كر نصاب تك پہنچے تو وہ اس كى زكاۃ ادا كرے گا.

ڈاكٹر على السالسوس كا يہى كہنا ہے، ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 849 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى نے بھى يہى تنبيہ كرتے ہوئے كہا ہے:

اگر انسان نے يہ حصص تجارتى غرض كے ليے خريدے ہوں، ـ يعنى اس نے يہ حصص آج خريدے اور كل جب بھى اسے منافع ملا اسے فروخت كر دے ـ تو اسے ان حصص ميں ہر برس زكاۃ ادا كرنا ہو گى، اور اس كے منافع ميں سے بھى جو حاصل ہو گا اس كى بھى زكاۃ ادا كرے گا.

اور اگر يہ حصص ڈويلپمنٹ وغيرہ كے ليے ہوں، اور وہ اسے فروخت كرنے كا ارادہ نہ ركھے، تو ديكھا جائےگا كہ؛ جو نقدى ہو ـ سونا يا چاندى يا نقد كرنسى ـ تو اس ميں زكاۃ واجب ہو گى، كيونكہ كرنسى اور سونا و چاندى ميں بعنيہ زكاۃ واجب ہے، لہذا وہ ہر حال ميں اس كى زكاۃ ادا كرے گا.

تو اس وقت اس ادارے كے ذمہ داران سے دريافت كيا جائے گا كہ ان كے خزانے ميں كيا كچھ مال ہے.

اگر تو اشياء اور منافع ہو؛ نہ كہ سونا اور چاندى، اور نہ ہى كرنسى تو اس ميں زكاۃ نہيں بلكہ زكاۃ اس ميں ہو گى جو اس سے حاصل ہو اور اس كى ملكيت ميں اس پر سال پورا ہو جائے. انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 199 ).

مستقل فتوى كميٹى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

ہم نے كمپنيوں كے حصص كى خريدارى ميں رقم كى سرمايہ كارى كى ہے، يہ علم ميں رہے كہ بعض كمپنياں منافع تقسيم كرنے سے قبل شرعى زكاۃ كاٹ ليں گى، اور بعض نہيں تو كيا زكاۃ اصل مال پر ہو گى يا ان كمپنيوں كے منافع پر ؟

يہ علم ميں ركھيں كہ حصہ دارى كى دو قسميں ہيں:

ا ـ ايك قسم تو صرف منافع حاصل كرنے كے ليے ہے، نہ كہ حصص كى فروخت كے ليے.

ب ـ دوسرى قسم تجارتى سامان كى طرح حصص كى فروخت كے ليے ہے؟

كميٹى كا جواب تھا:

اس كے ذمہ فروخت والے حصص اور ان كے منافع پر ہر سال زكاۃ نكالنى واجب ہے، اور اگر كمپنى حصہ داروں كى طرف سے زكاۃ نكالتى ہے تو يہ كافى ہے.

ليكن وہ حصص جو صرف سرمايہ كارى كے ليے ہيں، ان كے منافع ميں زكاۃ واجب ہو گى جب اس پر ايك سال پورا ہو جائے تو زكاۃ ادا كرے، ليكن اگر نقدى ہو تو پھر زكاۃ اصل اور منافع دونوں پر ہو گى. انتہى

ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 9 / 341 ).

اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

بعض تجارتى ادارے جائداد وغيرہ ميں حصہ دارى كا معاملہ كرتے ہيں، اور ادارے كے پاس ايك لمبى مدت تك رقم رہتى ہے، جو كئى سالوں تك محيط ہوتى ہے، تو اس حصہ دارى كے اموال كى زكاۃ كيسے ادا كى جائے؟

اور كيا ادارے كا مالك اس سارے مال كى وقت كے مطابق زكاۃ ادا كر سكتا ہے، اور پھر وہ اس زكاۃ كو حصہ داروں كے اصل مال يا منافع تقسيم كرنے سے قبل نكال لے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

تجارتى حصہ داريوں ميں ہر سال زكاۃ واجب ہوتى ہے؛ كيونكہ يہ تجارتى سامان ہے، لہذا اس ہر سال زكاۃ كے وقت ان كى قيمت كا اندازہ لگا كر اس كے دس كا چوتھا حصہ نكالے گا، چاہے وہ خريدارى كى قيمت كے برابر ہو يا اس سے كم يا زيادہ.

اور رہا ادارے كے مالك كا زكاۃ نكالنا، اگر تو يہ حصہ داروں كى جانب سے بطور وكيل ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، اور سابقہ تناسب كے مطابق ہى زكاۃ نكالى جائے گى، اور اگر وہ اسے زكاۃ نكالنے ميں وكيل نہيں بناتے تو وہ زكاۃ نہ نكالے، ليكن اسے زكاۃ واجب ہونے كے وقت ہر حصہ دار كو اس كى قيمت بتانا ہو گى تا كہ وہ اس كى زكاۃ اپنے حصہ كے مطابق نكال سكيں، يا پھر وہ اسے زكاۃ نكالنے ميں وكيل بناديں، اور اگر ان ميں سے بعض اسے وكيل بنائيں اور بعض نہ بنائيں تو جنہوں نے وكيل بنايا ہے ان كى زكاۃ نكال دے اور باقى حصہ داروں كى زكاۃ نہ نكالے.

اور يہ معلوم ہے كہ جب اس نے زكاۃ نكالى تو اسے اصل مال سے منہا يعنى كم كيا جائے گا، يا پھر منافع ميں سے كاٹ ليا جائے گا. انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 217 ).

اس قول كا خلاصہ:

وہ حصص جس كے مالك نے ان حصص سے تجارت اور منافع كا ارادہ كيا ہو، اور تجارتى كمپنيوں كے حصص ميں حصہ كى اصل رقم اور منافع دونوں ميں زكاۃ واجب ہے.

اور صنعتى كمپنيوں كا منافع جب زكاۃ كے نصاب كو پہنچے اور اس پر پورا سال گزر جائے تو اس پر زكاۃ واجب ہو گى، اور اس كے حصص ميں زكاۃ نہيں مگر اس حصہ كے مقابلہ ميں جو كمپنى كے خزانہ ميں اس كى قيمت ہے اس پر زكاۃ ہو گى.

اور زراعتى كمپنيوں ميں حصہ كے مقابلہ ميں جو كھيتى يا پھل ہيں اگر وہ ان زكاۃ والى اصناف ميں شامل ہيں تو ايك شرط كے ساتھ ان ميں زكاۃ واجب ہو گى كہ اگر وہ حصہ نصاب كو پہنچے، اور وہ نصاب تين سو صاع ہے اور كمپنى ميں خزانے ميں جو حصہ كے مقابلے ميں نقدى ہے اس پر بھى زكاۃ لاگو ہو گى.

كيا زكاۃ كمپنى كے ذمہ ہو گى يا حصہ داروں پر ؟

بعض محققين كا كہنا ہے كہ زكاۃ كمپنى كے ذمہ ہے، ان كى دليل يہ ہے كہ حصہ دار كمپنى كو ايك مستقل اور شخصى اعتبار حاصل ہے، اور وہ مال ميں تصرف كرنے كا حق ركھتى ہے، اور زكاۃ مال كے متعلقہ ہے، اس ليے زكاۃ كے ليے بلوغت اور عقل كى شرط نہيں ركھى گئى.

اس كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ كمپنى كو اگر چہ شخصى اعتبار حاصل ہے تو يہ شخصيتى اس پر زكاۃ كے وجوب كے ليے صالح نہيں، جبكہ زكاۃ كے وجوب كے اسلام اور آزادى... الخ كى شرط ہے، اور يہ اوصاف كمپنى ميں نہيں ہيں.

پھر يہ بھى ہے كہ كمپنى كى ملكيت ميں جو مال ہے وہ اس كا اپنا نہيں بلكہ اس كى ملكيت تو حصہ داروں كى نيابت ميں ہے، اصلا ملكيت تو حصہ داروں كى ہے نہ كہ كمپنى كى.

اور انہوں نے چوپايوں ميں شراكت سے قياس كرتے ہوئے بھى دليل پكڑى ہے، كيونكہ سارے مال ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے كہ جيسا وہ سارا ہے، نہ كہ ہر شريك كے مال پر عليحدہ عليحدہ.

اس كا جواب يہ ديا گيا ہے كہ: چوپايوں كے جمع ميں زكاۃ كے وجوب كا معنى يہ نہيں كہ مال كمپنى پر اس شخصى اعتبار سے مال واجب ہے، بلكہ اس كا معنى تو يہ ہے كہ شراكت داروں كا مال اور زكاۃ كا حساب ايك دوسرے كے ساتھ جمع كيا جائے جيسا كہ ايك ہى شخص كا مال ہے.

اور جمہور علماء كرام اور محققين كا كہنا ہے كہ زكاۃ حصہ دار پر ـ اور صحيح بھى يہى ہے ـ كيونكہ مال كا حقيقى مالك تو حصہ دار ہے، اور كمپنى تو صرف اس كى نيابت كرتے ہوئے كمپنى كى شروط كے مطابق اس كے حصوں ميں تصرف كر رہى ہے.

اور اس ليے بھى كہ زكاۃ ايك عبادت ہے جس كى ادائيگى كے وقت نيت كى ضرورت ہے، اور اس كى ادائيگى ميں اجروثواب حاصل ہوتا ہے، اور زكاۃ ادا نہ كرنے والے كو سزا دى جاتى ہے، اور حصہ دار كمپنى ميں اس چيز كا تصور بھى نہيں.

حصص كى زكاۃ كون نكالے گا: كمپنى يا حصہ دار؟

اصل تو يہ ہے كہ حصہ كى زكاۃ نكالنے والا حصہ دار خود ہے، كيونكہ وہ اس كا مالك اور وہى زكاۃ نكالنے كا مكلف بھى ہے، ليكن اگر اس كى نيابت كرتے ہوئے كمپنى اس كى جانب سے زكاۃ نكال دے تو اس ميں كوئى حرج نہيں فقھى اكيڈمى نے بيان كيا ہے كہ چار حالت ميں حصہ دار كمپنى كا زكاۃ نكالنے ميں كوئى مانع نہيں:

" جب كمپنى نے اپنے اساسى نظام ميں يہ بيان كيا ہو، يا پھر عمومى كميٹى كى جانب سے اس كا فيصلہ كيا جائے، يا حكومت كا قانون كمپنيوں كو زكاۃ نكالنے كا پابند كرتا ہو، يا پھر حصہ داروں كى جانب سے كمپنى كو اتھارٹى ليٹر ملے كہ وہ اس كے حصہ ميں سے زكاۃ ادا كر دے "

ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 1 / 881 ).

حصوں كى زكاۃ كى مقدار:

كمپنيوں كے حصص كى زكاۃ دس كا چوتھا يعنى اڑھائى فيصد ( 2.5 % ) ہے چاہے اس كے مالك كا مقصد تجارتى ہو يا سالانہ منافع حاصل كرنا، كيونكہ اگر وہ تجارتى مقاصد سے ہوں تو يہ تجارتى سامان ہے، اور تجارتى سامان كى زكاۃ ربع العشر دس كا چوتھا حصہ ہے، اور اگر اس نے سالانہ منافع حاصل كرنے كے ليے حاصل كيے ہيں تو يہ كرايہ والى عمارت كے مشابہ ہے، اور جائداد كے كرايہ ميں بھى زكاۃ اڑھائى فيصد ہے.

حصوں كے سال كا حساب كب شروع ہو گا ؟

تجارتى كمپنيوں كے حصوں يا ان حصوں ميں جن كے مالك حصص كى تجارت كرتے ہيں تو سال ميں ان كا منافع بھى اصل مال كے تابع ہے، كيونكہ تجارت كے منافع ميں كوئى نيا سال شمار نہيں كيا جائيگا، بلكہ اس كا سال بھى وہى ہے جو اصل مال كا ہے، اگر اصل مال نصاب كو پہنچتا ہو.

ديكھيں: المغنى لابن قدامۃ ( 4 / 75 ).

ايك بات كى تنبيہ ضرورى ہے كہ جب تجارتى سامان سونے يا چاندى يا نقدى كے ساتھ خريدا جاتا ہے تو اس كى خريدارى سے نيا سال شروع نہيں كيا جائے گا، بلكہ اگر وہ نصاب كے مطابق ہے تو اس كى بنا انہيں پيسوں اور نقدى پر ہو گى جس سے سامان خريدا گيا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

آپ كو علم ہونا چاہيے كہ تجارتى سامان كا سال اس كى خريدارى كے بعد نہيں آتا، بلكہ اس كا سال اصل مال والا ہى ہے، كيونكہ وہ تو راس المال سے دراہم كى طرح ہے جسے آپ نے سامان ميں تبديل كر ديا ہے، تو اس كا سال پہلے مال كا ہى ہو گا" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 234 ).

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 32715 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور صنعتى كمپنياں اور وہ جو اپنے حصص سرمايہ كارى اور سالانہ منافع پر ركھتى ہيں، نہ كہ تجارتى غرض سے تو ان حصص كے منافع پر زكاۃ ہو گى اگر ہر حصہ نصاب كو پہنچتا ہو، يا جس كے پاس نقد رقم ہے وہ اس حصہ كے ساتھ ملا كر نصاب كو پہنچ جائے تو اس كى زكاۃ ادا كرنا ہو گى، اور اس كے سال كا حساب اس منافع كو لينے كے وقت سے شروع ہو گا، جيسا كہ فقہ اكيڈمى اور شيخ عبد اللہ البسام كا فيصلہ ہے.

ديكھيں: مجلۃ المجمع الفقھى ( 4 / 1 / 722 ).

يہاں ايك تنبيہ كرنا ضرورى ہے كہ زراعتى كمپنيوں كے حصوں جن ميں كھيتى اور پھلوں كى زكاۃ واجب ہوتى ہے علماء كرام كے اتفاق كے مطابق اس ميں زكاۃ واجب ہونے كے ليے سال پورا ہونے كى شرط نہيں، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور اس كا حق كاٹنے كے دن ادا كرو الانعام ( 141 ).

ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 23 / 281 ).

تو ہر محصول كى زكاۃ عليحدہ شمار كى جائے گى.

زكاۃ نكالنے كے ليے حصہ كى قيمت كس طرح لگائى جائے گى ؟

جن حصوں ميں زكاۃ واجب ہے ( جن ميں مالك تجارت كرتا، يا تجارتى كمپنى كے حصص ہوں ) اس كى زكاۃ سال كے آخر ميں ماركيٹ قيمت كے مطابق لگا كر زكاۃ نكالى جائے گى.

كيونكہ يہ حصص تجارتى سامان ہيں، اور تجارتى سامان كى سال كے آخر ميں قيمت لگا كر پھر اس قيمت پر زكاۃ نكالى جاتى ہے، ليكن حصے كى اصل قيمت كو نہيں ديكھا جاتا.

مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 32715 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

اور وہ حصص جن ميں زكاۃ نہيں ہے ( وہ صنعتى كمپنيوں كے حصص ہيں ) سال كے آخر ميں ان حصص كى قيمت لگانے كى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ اس كى زكاۃ اس كے منافع پر ہے نہ كہ حصص پر.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے مندرجہ ذيل سوال كيا گيا:

كيا حصص كى زكاۃ اس كى رسمى قيمت پر ہو گى يا ماركيٹ كى قيمت كے مطابق يا كيا كرنا ہو گا؟

تو شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

حصص اور اس كے علاوہ دوسرے تجارتى سامان پر ماركيٹ كى قيمت كے مطابق زكاۃ ہو گى، لہذا جب خريدارى قيمت ايك ہزار ہو اور زكاۃ كے وجوب كے وقت اس كى قيمت دو ہزار ہو تو اس كا اندازہ دو ہزار لگايا جائےگا كيونكہ چيز كى قيمت تو زكاۃ كے وجوب كے وقت معتبر ہو گى نہ كہ اس چيز كى خريدارى كے وقت كى قيمت. انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 18 / 197 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب