الحمد للہ.
اگر عيسائى لڑكى كسى مسلمان شخص سے شادى پر راضى ہوتى ہے تو اسے درج ذيل امور كا علم ہونا ضرورى ہے:
اول:
معصيت و نافرمانى كے معاملات كے علاوہ باقى سب ميں بيوى كو خاوند كى اطاعت كا حكم ديا گيا ہے، اس ميں مسلمان اور غير مسلم بيوى ميں كوئى فرق نہيں، اس ليے جب خاوند اپنى مسلمان يا كافرہ بيوى كو معصيت و نافرمانى كى بجائے كوئى اور حكم دے تو بيوى كو اس كى اطاعت كرنا ہو گى، اللہ سبحانہ و تعالى نے مرد كے ليے عورت پر يہ حق ركخا ہے، كيونكہ گھر كى ذمہ دارى اور حكمرانى كا حق خاوند كو ديا گيا ہے، خاندانى زندگى اسى صورت ميں بہتر طور پر قائم رہ سكتى ہے جب گھرانے كے افراد ميں سے كسى ايك فرد كى بات مانى جاتى ہو اور اس كى اطاعت ہو.
ليكن ا سكا يہ معنى نہيں كہ آدمى تسلط اختيار كر جائے يا پھر اس حق كو بيوى اور اولاد كے ساتھ برا سلوك كرنے كے ليے بطور فرصت استعمال كرنا شروع كر دے، بلكہ اسے اصلاح اور بہترى كى كوشش كرنى چاہيے، اور ايك دوسرے سے مشورہ اور نصيحت كے طريقہ پر عمل كرنا ہوگا.
ليكن ازدواجى زندگى ميں كئى ايسے موڑ اور واقعات آتے ہيں جہاں كوئى فيصلہ كن بات كرنا ہوتى ہے، اور اس فيصلہ كو تسليم بھى كرنا پڑتا ہے، اس ليے ايك عيسائى لڑكى كو كسى مسلمان شخص سے شادى كرنے سے قبل اسے مدنظر ركھنا چاہيے اور اس پر ضرور غور كرنا چاہيے كہ اس حالت ميں اسے خاوند كى بات تسليم كرنا ہوگى.
دوم:
دين اسلام نے كسى يہودى اور عيسائى لڑكى سے شادى كرنا مباح كيا ہے اس كا يہ معنى ہوا كہ عورت كے يہوديت اور عيسائيت پر قائم رہتے ہوئے شادى كى جائيگى، اور اسے دين اسلام قبول كرنے پر مجبور نہيں كيا جائيگا، اور نہ ہى اسے اپنے دين كى عبادت كرنے سے روكا جائيگا.
ليكن خاوند كو يہ ضرور حق حاصل ہے كہ وہ اسے گھر سے باہر جانے سے روكے، چاہے وہ چرچ جانا چاہے تو بھى خاوند اسے روك سكتا ہے، كيونكہ بيوى كو اپنے خاوند كى اطاعت كا حكم ديا گيا ہے، اور خاوند كو يہ بھى حق ہے كہ گھر ميں كسى اعلانيہ برائى كرنے سے روكے، مثلا گھر ميں صليب نصب كرنا، اور ناقوس بجانے سے روكےگا.
اور اسى طرح بدعتى تہوار منانا مثلا عيسى عليہ السلام كى ميلاد، كيونكہ يہ دين اسلام ميں ايك برى اور منكر چيز ہے، يہى نہيں كہ ايك كے ليے بلكہ دونوں كے ليے نہ تو وہ عيسى عليہ السلام كى ميلاد منا سكتى ہے، اور نہ ہى خاوند نبى صلى اللہ عليہ وسلم كى ميلاد منا سكتا ہے، كيونكہ دين اسلام ميں اس كى كوئى اصل اور دليل نہيں ملتى.
اور اسى طرح مدر ڈے منانا بھى بدعت ہے، اس كے علاوہ ہر وہ عمل جس كے بارہ ميں غلط اعتقاد ركھا جاتا ہو مثلا يہ اعتقاد ركھنا كہ عيسى عليہ السلام كو سولى دى گئى اور انہيں قتل كر ديا يا اور قبر ميں دفنايا گيا تو وہ پھر زندہ ہو گئے.
حالانكہ حقيقت تو يہى ہے كہ عيسى عليہ السلام كو نہ تو قتل كيا گيا اور نہ ہے سولى پر لٹكايا گيا، بلكہ انہيں زندہ سلامت آسمان پر اٹھا ليا گيا تھا.
آپ مزيد تفصيل ديكھنے كے ليے سوال نمبر ( 10277 ) اور ( 43148 ) كے جوابات كا مطالعہ ضرور كريں.
خاوند كو حق حاصل نہيں كہ وہ اپنى عيسائى بيوى پر اس اعتقاد كو ترك كرنے پر مجبور كرے، ليكن خاوند كو يہ حق ضرور ہے كہ وہ اس اعتقاد كو گھر ميں اعلانيہ طور پر ظاہر نہ كرے، اور بچوں كے سامنے اس كا اظہار نہ كرنے دے، اس ليے عيسائى بيوى كا اپنے دين پر قائم رہنے اور گھر ميں برائى اور غلط قسم كے اعتقادات كا اظہار نہ كرنے دينے ميں فرق كرنا ضرورى ہے.
اسى طرح اگر خاوند اور بيوى مسلمان ہوں، اور بيوى كسى چيز كى اباحت كا اعتقاد ركھتى ہو ليكن خاوند اس كى حرمت كا اعتقاد ركھے تو اس حالت ميں بھى خاوند كو اسے منع كرنے كا حق حاصل ہے، كيونكہ وہ گھر كا حاكم و نگران ہے اور جسے وہ غلط سمجھتا ہے اسے روكنے كا حق ہے.
سوم:
جمہور اہل علم كہتے ہيں كہ كفار بھى شرعى فروعات كے مخاطب ہيں انہيں بھى اس پر عمل كرنے كا خطاب ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ وہ ايمان لانے كے بھى مخاطب ہيں، اس كا معنى يہ ہوا كہ جو چيز ايك مسلمان شخص پر حرام ہے وہ كافر پر بھى حرام ہوگى، مثلا شراب نوشى، اور خنزير كا گوشت كھانا اور بدعات ايجاد اور ان كى ترويج يا پھر بدعات والے تہوار منانا بھى حرام ہوگا.
اس ليے خاوند كو چاہيے كہ وہ درج ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم پر عمل كرتے ہوئے اپنى بيوى كو ايسى غلط اور حرام اشياء كے ارتكاب سے منع كرے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اے ايمان والو اپنے آپ اور اپنے اہل و عيال كو جہنم كى اس آگ سے بچاؤ جس كا ايندھن لوگ اور پتھر ہيں التحريم ( 6 ).
اس سے صرف اس كا وہ اعتقاد اور عبادت مستثنى ہوگا جو اس كے دين ميں مشروع ہے، مثلا اس كى نماز اور واجب كردہ روزہ، خاوند اس سے عيسائى بيوى كو روك نہيں سكتا، اس كےدين ميں نہ تو شراب نوشى كرنا حلال ہے، اور نہ ہى خنزير كا گوشت كھانا، اور نہ ہى بدعات والے تہوار منانا جنہيں راہبوں اور پادريوں نے خود ايجاد كر ركھا ہے.
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خاوند كے ليے بيوى كو چرچ اور معبد خانوں ميں جانے سے روكنے كا حق حاصل ہے، امام احمد رحمہ اللہ نے ايك شخص كى نصرانى بيوى كے بارہ ميں يہى بيان كرتے ہوئے كہا: وہ اسے عيسائيوں كے تہوار يا چرچ ميں جانے كى اجازت مت دے "
اور ان سے ايسے شخص كے بارہ ميں دريافت كيا گيا جس كى لونڈى عيسائى تھى كہ آيا مالك سے تہواروں اور چرچ اور ان كے اجتماعات ميں جانے سے روك سكتا ہے يا نہيں؟
تو امام احمد رحمہ اللہ نے فرمايا: اسے وہ اجازت نہ دے "
ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اس كى وجہ يہ ہے كہ خاوند اپنى بيوى كى كفريہ اسباب ميں معاونت نہ كر سكے، اور كفريہ شعار كى اجازت نہ دے سكے "
ان كا يہ بھى كہنا ہے: ليكن خاوند اسے اس روزے سے نہيں روك سكتا جس كے وجوب كا اعتقاد ركھتى ہے، چاہے اس وقت اسے بيوى سے استمتاع كا حق بھى نہ حاصل ہو سكے اور رہ جائے، اور نہ ہى وہ وہ گھر ميں بيوى كو مشرق ( يعنى بيت المقدس ) كى جانب رخ كر كے نماز ادا كرنے سے روكےگا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نجرانى عيسائيوں كو اپنى مسجد ميں ان كے قبلہ كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنے سے منع نہيں فرمايا تھا " انتہى
ديكھيں: احكام اھل الذمۃ ( 2 / 819 - 823 ).
نجرانى عيسائيوں كے وفد كا مسجد نبوى ميں اپنے قبلہ كى طرف رخ كر كے نماز ادا كرنے كا واقعہ ابن قيم رحمہ اللہ نے زاد المعاد ميں بھى ذكر كيا ہے، اور محققين حضرات نے كہا ہے كہ اس كے رجال ثقات ہيں، ليكن يہ روايت منقطع ہے " يعنى اس كى سند ضعيف ہے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 629 ).
مزيد آپ سوال نمبر ( 3320 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .