الحمد للہ.
نماز حاجت كا ذكر چار احاديث ميں ملتا ہے، جن ميں سے دو احاديث تو موضوع اور من گھڑت ہيں، اور ان دو حديثوں ميں سے ايك ميں بارہ اور دوسرى حديث ميں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تيسرى حديث بھى بہت زيادہ ضعيف ہے، اور چوتھى حديث بھى ضعيف ہے اور ان دونوں حديثوں ميں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے.
پہلى حديث:
وہ ہے جس كا سوال ميں ذكر كيا گيا ہے اور يہ حديث عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى جاتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم بارہ ركعتيں دن ميں يا رات ميں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت ميں تشھد پڑھو جب تم اپنى نماز كى آخرى تشھد پڑھو تو اس ميں اللہ كى حمد و ثنا بيان كرو اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو، اور سجدہ ميں سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھو اور دس بار
" لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير"
پھر يہ كلمات كہو:
" اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة"
اور اس كے بعد اپنى حاجت طلب كروا ور سجدہ سے سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير دو، اور يہ بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كيوكہ وہ اس سے مانگيں گے تو ان كى دعا قبول كر لى جائيگى "
اسے ابن جوزى نے الموضوعات ( 2 / 63 ) ميں عامر بن خداش عن عمرو بن ھارون البلخى كے طريق سے روايت كيا ہے.
اور ابن جوزى رحمہ اللہ نے عمرو البلخى كى ابن معين سے تكذيب نقل كى ہے، اور كہا ہے: سجدہ ميں قرآن كى ممانعت صحيح ثابت ہے .
ديكھيں: الموضوعات ( 2 / 63 ) اور ترتيب الموضوعات للذھبى ( 167 ).
اور اس دعاء " معاقد العز من عرش اللہ " سے مقصود ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے جو شرع ميں وارد نہيں بلكہ بعض اہل علم جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں نے يہ دعا كرنے سے منع كيا ہے؛ كيونكہ يہ بدعتى وسيلہ ميں سے ہے، اور كچھ دوسرے علماء نے اسے جائز قرار ديا ہے ان كا اعتقاد ہے كہ اللہ كى صفات ميں سے كسى بھى صفت كا وسيلہ جائز ہے اس ليے نہيں كہ ان كے ہاں مخلوق كا وسيلہ جائز ہے.
شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" ميں كہتا ہوں: ليكن جس اثر اور روايت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ باطل ہے صحيح نہيں، اسے ابن جوزى نے " الموضوعات " ميں روايت كيا ہے اور كہا ہے: يہ حديث بلاشك و شبہ موضوع ہے، اور حافظ زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ( 273 ) ميں ان كے اس فيصلے كو برقرار ركھا ہے.
اس ليے اس سے حجت پكڑنا صحيح نہيں، اگرچہ قائل كا قول ہى ہو " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جو اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت كے ساتھ وسيلہ ہے، اور دوسرے دلائل كے ساتھ يہ توسل مشروع ہے جو اس موضوع احاديث سے غنى كر ديتى ہيں.
ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" أسألك بمعاقد العز من عرشك " يعنى ان خصلتوں كے ساتھ جن كا عرش عزت مستحق ہے، يا ان كے منعقد ہونے كى جگہوں كے ساتھ، اور اس كے معنى كى حقيقت يہ ہے كہ: تيرے عرش كى عزت كے ساتھ، ليكن ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے اصحاب اس لفظ كے ساتھ دعا كرنا مكروہ سمجھتے ہيں.
اس شرح كى پہلى وجہ پر وہ خصلتيں ہوئيں جن كا عرش عزت مستحق ہے، تو يہ اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت سے توسل ہوا لہذا جائز ہو گا.
ليكن دوسرى وجہ كى بنا پر جو كہ عرش سے عزت كے حصول كى جگہيں معنى ہے تو يہ مخلوق سے توسل ہے اس ليے جائز نہيں، بہر حال يہ حديث كسى بحث و تمحيث كى مستحق نہيں اور نہ ہى تاويل كى؛ كيونكہ يہ حديث جب ثابت ہى نہيں اس ليے اوپر جو بيان ہوا ہے اس پر اكتفاء كرتے ہيں. علامہ البانى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.
ديكھيں: التوسل انوعہ و حكامہ ( 48 - 49 ).
اور شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" اس حديث ميں غرابت پائى جاتى ہے جيسا كہ كہ سائل نے بيان كيا ہے كہ قيام كے علاوہ ركوع يا سجدہ ميں سورۃ الفاتحہ مشروع ہے، اور يہ تكرار كے ساتھ ہے، اور پھر سوال ميں يہ بھى ہے كہ " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جيسے اور كلمات بھى ہيں اور يہ سب امور غريب اور اچھنبے ہيں، اس ليے سائل كو چاہيے كہ وہ اس حديث پر عمل مت كرے.
اور پھر نبى كريمص لى اللہ عليہ وسلم سے جو صحيح احاديث ثابت ہيں جن ميں كوئى اشكال بھى نہيں جن ميں نوافل اور عبادات نماز و اطاعت كا بيان ملتا ہے ان احاديث ميں ہى ان شاء اللہ كفائت ہے " انتہى
ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ).
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآن مجيد كى تلاوت سے منع فرمايا ہے.
على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآت كرنے سے منع فرمايا "
صحيح مسلم حديث نمبر ( 480 ).
سوال نمبر ( 34692 ) كے جواب ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى جانب سے حديث كے متن اور سند كے ضعف كا بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
نماز حاجت كے متعلق دوسرى حديث درج ذيل ہے:
ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" ميرے پاس جبريل عليہ السلام كچھ دعائيں لے كر آئے اور كہا: اگر آپ كو كوئى دنياوى پريشانى ہو تو آپ يہ دعائيں پڑھ كر اپنى ضرورت مانگيں:
" يا بديع السموات والأرض ، يا ذا الجلال والإكرام ، يا صريخ المستصرخين ، يا غياث المستغيثين ، يا كاشف السوء ، يا أرحم الراحمين ، يا مجيب دعوة المضطرين ، يا إله العالمين ، بك أنزل حاجتي وأنت أعلم بها فاقضها"
اے آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و اكرام، اے لوگوں كى پكار سننے والے، اے مدد طلب كرنے والوں كى مدد كرنے والے، اے برائى اور شر كو دور كرنے والے، اے ارحم الراحمين، اے مجبور و لاچار كى دعا قبول كرنے والے، يا الہ العالمين، مجھے ضرورت اور حاجت ہے اور تو اسے زيادہ جانتا ہے ميرى اس حاجت كو پورا فرما "
اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 419 ) اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 5298 ) ميں اسے موضوع قرار ديا ہے.
اور تيسرى حديث درج ذيل ہے:
عبد اللہ بن ابى اوفى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جس كسى كو بھى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب يا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوء كرے اور دو ركعت ادا كر كے اللہ كى حمد و ثنا بيان كر كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے اور پھر يہ كلمات كہے:
" لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، أسألك موجبات رحمتك ، وعزائم مغفرتك ، والغنيمة من كل بر ، والسلامة من كل إثم ، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ، ولا هما إلا فرجته ، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين "
اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، رب عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات و حمد اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے اللہ ميں تجھ سے تيرى رحمت واجب ہونے والے امور طلب كرتا ہوں، اور تيرے بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نيكى كى غنيمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، ميرے سب گناہ معاف كر دے، اور ميرے سارے غم و پريشانياں دور فرما، اور تيرى رضا و خوشنودى كى جو بھى حاجت و ضرورت ہے وہ پورى فرما اے ارحم الراحمين "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 479 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1384 ).
امام ترمذى اس حديث كے متعلق كہتے ہيں: يہ حديث غريب ہے، اور اس كى سند ميں كلام كى گئى ہے.
اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 416 ) ميں ذكر كيا اور اسے ضعيف جدا يعنى بہت زيادہ ضعيف قرار ديا ہے.
اس حديث كا ضعف سوال نمبر ( 10387 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.
چوتھى حديث درج ذيل ہے:
انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" اے على كيا ميں تجھے ايك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پريشانى ہو تو اپنے رب سے دعا كرو تو اللہ كے حكم سے يہ دعاء قبول ہو اور تيرى پريشانى و غم دور ہو جائے ؟
وضوء كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللہ كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو اور اپنے ليے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں كے ليے بخشش كى دعا كر كے يہ كلمات ادا كرو:
" اللهم أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون ، لا إله إلا الله العلي العظيم ، لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش العظيم ، رب العالمين ، اللهم كاشف الغم ، مفرج الهم ، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك ، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما ، فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنيني بها عن رحمة من سواك"
اے اللہ تو اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كرنے والا ہے جس ميں وہ اختلاف كرتے ہيں، اللہ على العظيم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين اور عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے غموں كو دور كرنے والے اللہ، اور پريشانيوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنيا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحيم، ميرى اس حاجت و ضرورت ميں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ايسى رحمت فرما جو مجھے تيرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے "
اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں: الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ).
علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب ( 417 ) ميں ضعيف قرار ديا اور كہا ہے: اس كى سند مظلم يعنى اندھيرى ہے اس ميں ايسے روات ہيں جو معروف نہيں. اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ( 5287 ) بھى ديكھيں.
خلاصہ يہ ہوا كہ:
اس نماز كے متعلق كوئى حديث صحيح نہيں، اس ليے مسلمان شخص كے ليے يہ نماز ادا كرنا مشروع نہيں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں جو صحيح احاديث ميں نمازيں اور دعائيں اور اذكار ثابت ہيں وہى كافى ہيں.
دوم:
سوال كرنے والى كا يہ كہنا كہ:
ميں نے اس كا تجربہ كيا ہے اور اسے فائدہ مند پايا ہے"
اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ايسى بات كر چكے ہيں، اور پھر اس طرح كے اقوال سے شريعت ثابت نہيں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہيں ہو جاتا.
شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعاء كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبول كا سبب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، بعض اوقات اللہ تعالى تو سنت كے علاوہ كسى اور چيز كے توسل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت بتدريج ہوتى ہے " انتہى مختصرا
ديكھيں: تحفۃ الذاكرين ( 140 ).
اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:
" اور جو يہ ذكر كيا گيا ہے كہ فلان شخص نے اس كا تجربہ كيا تو اسے صحيح پايا، اور فلان نے بھى تجربہ كيا تو اسے صحيح پايا؛ يہ سب اس حديث كے صحيح ہونے پر دلالت نہيں كرتا، بعض اوقات انسان كوئى تجربہ كرتا ہے اور اسے اس كا مقصود حاصل ہو جاتا ہے تو يہ اس كے متعلق جو كچھ كہا گيا يا جو وارد ہوا ہے اس كے صحيح ہونے پر دلالت نہيں كرتا، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كا حصول قضاء و قدر سے ہوا ہو، يا پھر فاعل كے ليے ابتلاء و امتحان ہو، تو كسى چيز كا ہو جانا اس كے متعلق وارد ہونے كے صحيح ہونے پر دلالت نہيں كرتا " انتہى
ديكھيں: المنتقى فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ).
واللہ اعلم.