الحمد للہ.
اول:
ڈاكخانوں اور سودى بنكوں ميں مال ركھنا جائز نہيں، جو خود بھى سود كھاتے اور مال جمع كروانے والوں كو بھى سود كھلاتے ہيں، اور ان دونوں جگہوں ميں مال ركھنے والا شخص اس سے خالى نہيں رہتا، يا تو وہ سود كھائے گا، يا پھر كھلائے گا، اور يا دونوں كام كرے گا.
ابو جحيفہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سود كھانے اور كھلانےوالے پر لعنت فرمائى "
صحيح بخارى جديث نمبر ( 5032 ).
دوم:
جو نصاب تك پہنچنے والى رقم كا مالك ہو ـ چاہے وہ رقم متفرق ہو كچھ ايك جگہ اور كچھ دوسرى جگہ ـ تو سال گزرنے كے بعد اس كى زكاۃ ادا كرنا واجب ہے، اور سال كا حساب نصاب پہنچنے كى تاريخ سے شروع كيا جائے گا، جب اسلامى سال مكمل ہو جائے تو اس كى زكاۃ نكالى جائے گى، اور زكاۃ اڑھائى فيصد كے حساب سے ادا كرنا ہو گى.
واللہ اعلم .