اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

تيسرى طلاق دينے پر دعوى كيا كہ وہ غصہ ميں تھا

70342

تاریخ اشاعت : 03-07-2012

مشاہدات : 3340

سوال

ايك شخص نے اپنى بيوى كو دو طلاقيں ديں، اور اپنے والد كے ساتھ جھگڑے بيوى كو تيسرى طلاق دے دى، اور بعد ميں دعوى كرنے لگا كہ وہ شديد غصہ كى حالت ميں تھا اور اسے نہيں معلوم كہ وہ كس طرح طلاق دينے ميں جلد بازى كر گيا برائے مہربانى بتائيں كہ اس طلاق كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

جس طلاق كے بعد خاوند اپنى بيوى سے رجوع كر كے اسے دوبارہ اپنى عصمت ميں لا سكتا ہے وہ دو طلاقيں ہيں يعنى دو بار طلاق دے كر تو وہ رجوع كر سكتا ہے، ليكن تيسرى طلاق دے دے تو وہ عورت اس كے ليے اجنبى بن جاتى ہے، اور اس كے ليے اس وقت تك حلال نہيں ہو گى جب تك وہ كسى اور شخص سے نكاح رغبت نہ كر لے، اور دخول كرنے كے بعد اپنى مرضى سے اسے چھوڑ دے يا پھر فوت ہو جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يہ طلاقيں ( رجوع ولى ) دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى كے ساتھ روكنا ہے، يا پھر عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ تعالى كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں يہ ڈر ہو كہ دونوں اللہ كى حدود قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں، يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں خبردار ان سے تجاوز مت كرو، اور جو كوئى بھى اللہ كى حدود سے تجاوز كريگا وہ ہى ظالم ہے البقرۃ ( 229 ).

پھر اگر اس كو ( تيسرى ) طلاق دے دے تو اب اس كے ليے حلال نہيں جب تك وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے سے نكاح نہ كر لے، پھر اگر وہ بھى طلاق دے دے تو ان دونوں كو ميل جول كر لينے ميں كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ يہ جان ليں كہ اللہ كى حدود كو قائم ركھ سكيں گے، يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں جنہيں وہ جاننے والوں كے ليے بيان فرما رہا ہے البقرۃ ( 230 ).

طلاق واقع ہونے كے ليے شرط نہيں كہ بيوى اپنے خاوند سے طلاق كے الفاظ سنے، يا پھر اسے علم ہو، چنانچہ جب خاوند اپنى بيوى كو الفاظ بول كر يا كلمات ميں لكھ كر بيوى كى موجودگى ميں يا اس كى غير حاضرى ميں طلاق دے تو طلاق واقع ہو جائيگى.

غصہ كى حالت ميں دى گئى طلاق كے كئى ايك حالات ہيں:

اگر تو غصہ قليل سا ہو كہ وہ آدمى كے ارادہ و مقصد اور اختيار پر اثرانداز نہ ہوتا ہو تو طلاق صحيح ہے اور واقع ہو جائيگى.

اور اگر غصہ اتنا شديد ہو كہ آدمى كو پتہ ہى نہ چلے كہ وہ كيا كہہ رہا ہے اور كيا كر رہا ہے اور اسے محسوس ہى نہ ہو تو اس شخص كى طلاق واقع نہيں ہوگى، كيونكہ يہ مجنون و پاگل كى طرح ہے جس كا مؤاخذہ نہيں كيا جائيگا.

ان دونوں حالتوں كے حكم ميں علماء كے ہاں كوئى اختلاف نہيں، ليكن ايك تيسرى حالت باقى ہے وہ يہ كہ غصہ اتنا شديد ہو كہ وہ ارادہ و اختيار پر اثرانداز ہوتا ہو اور اسے ايسى كلام كرنے پر مجبور كر دے جو وہ نہيں چاہتا جيسا كہ اس سے وہ بات كہلوائى جا رہى، پھر غصہ زائل ہونے كے بعد فورا وہ اس پر نادم ہو، ليكن يہ غصہ اتنا شديد نہ ہو كہ وہ ہوش و حواس ہى كھو بيٹھے اور اسے ادراك ہى نہ رہے، اور اپنے افعال و اقوال پر كنٹرول نہ ہو، تو غصہ كى اس قسم كے حكم ميں علماء كرام كا اختلاف پايا جاتا ہے، اس كى تفصيل سوال نمبر ( 22034 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب

متعلقہ جوابات