جمعہ 21 جمادی اولی 1446 - 22 نومبر 2024
اردو

اگر دوران رمضان ايسے ملك سفر كرے جس كا مطلع مختلف ہو تو وہ روزے كس طرح ركھے ؟

سوال

اگر مسلمان شخص رمضان المبارك كے دوران كسى ايسے ملك كا سفر كرے جو اس كے ملك سے رمضان شروع ہونے ميں آگے يا پيچھے ہو اور وہ اس ملك ميں عيد تك رہے تو وہ كس ملك كے ساتھ عيد منائےگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

" جب آدمى كسى ايك ملك سے دوسرے ملك سفر كرے اور ان كا مطلع مختلف ہو تو اصول اور قاعدہ يہ ہے كہ وہ روزہ ركھنے اور عيد منانے ميں اس ملك كے مطابق عمل كرےگا جہاں وہ رمضان المبارك شروع ہونے كے وقت تھا، ليكن اگر انتيس سے كم ايام ہوتے ہوں تو اس كے ليے انتيس دن پورے كرنا ضرورى ہيں، كيونكہ قمرى مہينہ انتيس يوم سے كم كا نہيں ہوتا.

يہ قاعدہ اور اصول نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان سے اخذ كيا گيا ہے:

" جب تم اسے ( چاند كو ) ديكھو تو روزہ ركھو، اور جب اسے ديكھو تو عيد مناؤ "

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مہينہ انتيس يوم كا ہوتا ہے، چنانچہ تم چاند ديكھے بغير روزہ نہ ركھو اور چاند ديكھ كر ہى عيد مناؤ "

اور حديث كريب ميں ہے كہ ام فضل رضى اللہ تعالى عنہا نے انہيں معاويہ رضى اللہ تعالى كے پاس شام بھيجا تو انہوں نے واپس آكر ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كو بتايا كہ لوگوں نے شام ميں جمعہ كى رات رمضان كا چاند ديكھا تھا، تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كہنے لگے:

ليكن ہم نے ہفتہ كى رات چاند ديكھا ہے، اس ليے ہم تو تيس روزے مكمل كرينگے، يا پھر چاند ديكھ ليں ( عيد منائينگے )

تو كريب كہتے ہيں: كيا آپ معاويہ رضى اللہ تعالى عنہا كى رؤيت پر كفائت نہيں كرينگے ؟

تو ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما نے جواب ميں كہا: نہيں، ہميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايسا ہى حكم ديا ہے "

اس قاعدہ اور اصول كى وضاحت كے ليے آپ كے ليے ہم چند ايك مثاليں پيش كرتے ہيں:

پہلى مثال:

ايك شخص اتوار كے روز رمضان شروع ہونے والے ملك سے ايسے ملك گيا جہاں رمضان ہفتہ كے دن شروع ہوا، اور انہوں نے انتيس روزوں كے بعد اتوار كے دن عيد الفطر منائى تو يہ شخص ان كے ساتھ عيد منائےگا اور ايك روزہ كى قضاء كرےگا.

دوسرا مثال:

ايك شخص ايسے ملك سے جہاں اتوار كے روز رمضان شروع ہوا ايسے ملك گيا جہاں سوموار كے دن رمضان المبارك كى ابتدا ہوئى اور انہوں نے تيس روزے ركھ كر بدھ كے روز عيد منائى، تو يہ شخص ان كے ساتھ ہى روزے ركھےگا چاہے تيس روزوں سے زيادہ ہى كيوں نہ ہوجائيں، كيونكہ وہ ايسى جگہ ہے جہاں ابھى چاند نظر نہيں آيا، اس ليے اس كے ليے عيد منانا جائز نہيں.

اور اس كے مشابہ يہ بھى ہے كہ اگر وہ روزہ كى حالت ميں كسى ايسے ملك سے سفر كرے جہاں سورج چھ بجے غروت ہوتا ہے، اور جس ملك اور علاقے ميں گيا وہاں سورج سات بجے غروب ہوتا ہے، تو وہ سات بجے سورج غروب ہونے سے قبل روزہ افطار نہيں كر سكتا، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

پھر تم رات تك روزہ مكمل كرو، اور جب مسجدوں ميں اعتكاف كى حالت ميں ہو تو بيويوں سے مباشرت نہ كرو، يہ اللہ تعالى كى حديں ہيں چنانچہ تم ان كے قريب بھى نہ جاؤ اسى طرح اللہ تعالى اپنى آيات لوگوں كے ليے بيان كرتا ہے تا كہ وہ تقوى اختيار كرے.

تيسرى مثال:

ايك شخص اتوار كے دن رمضان المبارك كا پہلا روزہ ركھ كر كسى دوسرے ملك چلا گيا جہاں كے لوگوں نے پہلا روزہ سوموار كے دن ركھا اور انتيس روزے ركھ منگل كے روز عيد الفطر منائى تو يہ شخص ان كے ساتھ عيد منائےگا، تو اس طرح ان كے ساتھ اس كے انتيس روزے ہونگے ليكن اس كا اپنے تيس يوم كے روزے.

چوتھى مثال:

ايك شخص ايسے ملك سے جہاں كے لوگوں نے اتوار كو پہلا روزہ ركھا اور تيس روزے مكمل كر كے منگل كے دن عيد منائى كسى ايسے ملك گيا جہاں كے افراد نے اتوار كے دن پہلا روزہ ركھا اور انتيس روزے مكمل كر كے سوموار كے دن عيد منائى، تو يہ شخص بھى ان كے ساتھ ہى عيد منائےگا اوراس كے ذمہ ايك روزہ كى قضاء لازم نہيں؛ كيونكہ اس نے انتيس دن پورے كر ليے ہيں.

پہلى مثال ميں روزہ نہ ركھنے اور عيد كرنے كى دليل يہ ہے كہ: چاند نظر آ گيا ہے، اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" جب تم اسے ( چاند كو ) ديكھو تو عيد منا لو "

اور ايك دن كے روزہ كى قضاء كى دليل يہ ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" مہينہ انتيس دن كا بھى ہوتا ہے "

اس ليے انتيس دن سے مہينہ كم ہونا ممكن ہى نہيں.

اور دوسرى مثال ميں تيس روزے ركھنے كے باوجود روزہ ترك نہ كرنے بلكہ روزہ ركھنے كے وجوب كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے:

" جب تم چاند ديكھو تو عيد الفطر مناؤ "

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عيد الفطر منانے كو رؤيت كے ساتھ معلق كيا ہے، اور چاند نظر نہيں آيا، تو اس جگہ اور علاقے ميں يہ دن رمضان المبارك كا ہى دن شمار ہوگا، اس ليے روزہ ترك كرنا حلال نہيں.

تيسرى اور چوتھى مثال كا حكم واضح ہے.

اس مسئلہ ميں دلائل كے ساتھ ہمارے ليے تو يہى كچھ ظاہر ہوا ہے، جو كہ مطلع جات مختلف ہونے ميں حكم بھى مختلف ہونے ميں راجح قول پر مبنى ہے، اور يہ كہنا كہ اس سے حكم مختلف نہيں ہوتا اور جب بھى كسى جگہ چاند كى شرعى رؤيت ثابت ہو جائے سب لوگوں پر روزہ ركھنا، يا عيد الفطر منانا لازم ہو جاتى ہے، تو پھر چاند كے ثابت ہونے پر حكم جارى ہوتا ہے، ليكن وہ سرى طور پر روزہ ركھے يا نہ ركھے، تا كہ جماعت كى مخالفت نہ ہو " انتہى.

ماخذ: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 19 / 69 )