الحمد للہ.
مریض کی عیادت
اس سے مراد مریض کی خبر گیری ہے، اور اسے عیادت اس لیے کہتے ہیں کہ لوگ بار بار مریض کی عیادت کے لیے جاتے ہیں۔
مریض کی عیادت کا حکم:
کچھ اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مریض کی عیادت کرنا سنت مؤکدہ عمل ہے، جبکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے "الاختيارت" (ص 85)میں اسے فرض کفایہ قرار دیا ہے، اور یہی موقف صحیح ہے۔ اس کی دلیل صحیح بخاری و مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ: (پانچ چیزیں مسلمان پر مسلمان کے لیے واجب ہیں، ان میں مریض کا بھی ذکر فرمایا) جبکہ اسی حدیث کے دوسرے الفاظ میں یہ بھی ہے کہ: (مسلمان کا دوسرے مسلمان پر حق ہے کہ ۔۔۔) امام بخاری رحمہ اللہ نے اس پر باب قائم کرتے ہوئے فرمایا: "باب ہے: مریض کی عیادت کے واجب ہونے کے بارے میں، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان کیا جاتا ہے کہ: بھوکے لوگوں کو کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو، اور قیدیوں کو رہا کرواؤ۔" ختم شد
تو یہ حدیث مریض کی عیادت کے واجب ہونے کی دلیل ہے، نیز فرض کفایہ ہونے کا موقف بایں طور اخذ کیا جا سکتا ہے کہ جس طرح حدیث میں مذکور بھوکے شخص کو کھلانا اور قیدی کو آزاد کروانا فرض کفایہ ہے اسی طرح مریض کی عیادت بھی فرض کفایہ ہے۔ تاہم نووی رحمہ اللہ نے اس کے فرض نہ ہونے پر اجماع نقل کیا ہے۔ لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری: (10/117) میں اس موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ: ان کے ہاں یہ فرض عین نہیں ہے۔
الشیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ "الشرح الممتع" (5/173) میں کہتے ہیں:
"صحیح موقف یہ ہے کہ مریض کی عیادت کرنا واجب کفائی ہے، اس لیے مسلمانوں پر لازم ہے کہ مریضوں کی عیادت کیا کریں۔" ختم شد
مریض کی عیادت کی فضیلت:
مریض کی عیادت کے لیے متعدد احادیث میں فضیلت بیان کی گئی ہے، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یقیناً مسلمان جب اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرے تو وہ اس وقت تک جنت کے چنے ہوئے پھلوں میں رہتا ہے جب تک عیادت کر کے واپس نہ آ جائے) مسلم: (2568)
اس حدیث مبارکہ میں عیادت کرنے والے کو باغ کے اندر جا کر من پسند پھلوں کو چننے کے بعد جھولی بھر کر واپس آنے والے سے تشبیہ دی گئی ہے۔
اسی طرح سنن ترمذی: (2008) میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو کسی مریض کی عیادت کرے، یا اپنے کسی بھائی کی اللہ کے لیے زیارت کرے تو ایک منادی کہتا ہے: تمہاری دنیاوی و اخروی زندگی مبارک ہو، تمہارا چلنا مبارک ہو، تم نے جنت میں ایک گھر حاصل کر لیا ہے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ترمذی میں حسن قرار دیا ہے۔
ایسے ہی امام احمد نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جو کسی مریض کی عیادت کرے تو وہ اللہ کی رحمت میں داخل ہو جاتا ہے، اور جب بیٹھ جائے تو رحمت میں مکمل ڈوب جاتا ہے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے سلسلہ صحیحہ: (2504) میں اسے صحیح قرار دیا ہے۔
اسی طرح سنن ترمذی: (969) میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو فرماتے ہوئے سنا: (کوئی بھی مسلمان کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کرے تو اس کے لیے 70 ہزار فرشتے شام تک رحمت کی دعا کرتے ہیں، اور اگر شام کے وقت عیادت کرے تو اس کے لیے تو 70 ہزار فرشتے صبح تک رحمت کی دعا کرتے ہیں، اور اسے جنت کا ایک باغ دے دیا جاتا ہے۔) ا س حدیث کو البانی نے صحیح ترمذی میں صحیح قرار دیا ہے۔
عیادت صرف ایسے مریض کی نہیں ہوتی جس سے انسان کی جان پہچان ہو، بلکہ عیادت کسی بھی عام و خاص کی ہو سکتی ہے، یہی موقف امام نووی رحمہ اللہ نے شرح مسلم میں ذکر کیا ہے۔
وہ کون سا مریض ہے جس کی عیادت واجب ہے؟
اس سے وہ مریض مراد ہے جو اپنی بیماری کی وجہ سے لوگوں سے ملنے جلنے کی سکت نہ رکھے، لیکن اگر کوئی شخص بیماری کی حالت میں بھی گھر سے باہر آتا جاتا ہو، لوگوں سے میل جول رکھے تو اس کی عیادت واجب نہیں ہے۔
"الشرح الممتع" (5/171)
غیر محرم عورت کی عیادت:
اجنبی عورت کی غیر محرم مرد عیادت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اسی طرح اجنبی مرد کی اجنبی عورت عیادت کرے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، لیکن اس کے لیے کچھ شرائط ہیں کہ: پردے کا مکمل خیال رکھا جائے، فتنے کا خدشہ نہ ہو اور خلوت بھی نہ ہو۔
چنانچہ امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "باب ہے: عورتوں کا مردوں کی عیادت کرنے کے بارے میں، ام درداء رضی اللہ عنہا نے مسجد کے انصاری نمازی کی عیادت کی تھی۔" پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ذکر کی کہ انہوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور بلال رضی اللہ عنہ کی اس وقت عیادت کی تھی جب یہ دونوں ہجرت کے بعد مدینہ آتے ہی بیمار ہو گئے تھے۔
اسی طرح صحیح مسلم میں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ: سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعد کہا تھا کہ: "ہمارے ساتھ چلیں، ہم ام ایمن سے مل کر آتے ہیں، جیسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم ام ایمن سے ملنے جاتے تھے۔ تو دونوں ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ملنے گئے۔"
ابن الجوزی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"یہاں بہتر یہ ہے کہ: اس ملاقات کو ایسی صورت پر محمول کیا جائے جب فتنے کا خدشہ نہ ہو، جیسے کوئی بوڑھی خاتون سے ملنے جایا جائے۔" ختم شد
کافر شخص کی عیادت:
اگر مشرک شخص کی عیادت سے شرعی مصلحت حاصل ہو تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے؛ کیونکہ صحیح بخاری: (1356) میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک یہودی لڑکے کی عیادت فرمائی ، اور دوران عیادت اسے دین اسلام کی دعوت دی تو وہ مسلمان ہو گیا، اسی طرح بخاری اور مسلم کی روایت کے مطابق ہی نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم اپنے چچا ابو طالب کے پاس ان کے مرض الوفات میں گئے تھے، انہیں بھی دین اسلام کی دعوت دی تھی لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔
تو کافر شخص کی عیادت میں شرعی مصلحت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے اسلام کی دعوت دی جائے، یا اس کے شر سے بچنے کے لیے عیادت ہو، یا کافر شخص کے اہل خانہ کی دل جوئی مقصود ہو، یا اسی طرح کا کوئی بھی مثبت ہدف ہو سکتا ہے۔
اس حوالے سے مزید کے لیے آپ فتح الباری (10/125) کا مطالعہ کریں۔
کیا عیادت بار بار کی جا سکتی ہے؟
بعض اہل علم نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ روزانہ عیادت کے لیے نہ جائے کہیں مریض کے لیے گراں نہ ہو۔ جبکہ صحیح موقف یہ ہے کہ بار بار عیادت کا حکم حالات کے مطابق ہو گا؛ کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہو سکتے ہیں جن سے مل کر مریض کو حوصلہ ملتا ہے، اور اگر روزانہ وہ لوگ مریض کو نظر نہ آئیں تو مریض پر گراں ثابت ہوتا ہے، تو ایسے لوگوں کے لیے تسلسل کے ساتھ روزانہ عیادت کرنا صحیح طریقہ ہو گا، تو مریض کی راحت کے لیے روزانہ عیادت کر سکتے ہیں۔
حاشية ابن قاسم (3/12)
مریض کی عیادت کرتے ہوئے زیادہ دیر تک مت بیٹھے
مریض کی عیادت کرتے ہوئے زیادہ دیر تک بیٹھے رہنا مناسب عمل نہیں ہے، اس لیے عیادت کرتے ہوئے تھوڑی دیر بیٹھے اور واپسی کی راہ لے، مبادا مریض کے لیے یا مریض کے اہل خانہ کے لیے گراں ہو۔ کیونکہ مریض کی حالت پل میں تولہ اور پل میں ماشہ ہوتی ہے، پھر کبھی مریض نے کچھ ایسے کام بھی کرنے جنہیں وہ کسی کے سامنے نہیں کرنا چاہتا، تو ایسے میں مریض کو تنگی میں ڈالنا مناسب نہیں ہے۔
ہاں بسا اوقات مریض کے مزاج اور طبیعت کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کے بارے میں مریض یہ پسند کرے کہ وہ زیادہ دیر مریض کے پاس رہیں۔
دیکھیں: حاشية ابن قاسم (3/12) اور الشرح الممتع (5/174)
عیادت کا وقت:
عیادت کے وقت کے حوالے سے احادیث مبارکہ میں ایسا کچھ نہیں ہے کہ جس میں عیادت کے لیے کوئی دن مخصوص کیا گیا ہو، چنانچہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عیادت کے لیے کوئی دن مخصوص نہیں کیا ہوا تھا، نہ ہی اس کے لیے کوئی وقت خاص تھا، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عیادت کے لیے دن ہو یا رات کسی بھی مناسب وقت میں عیادت کرنا اپنی امت کے لیے جائز قرار دیا ہے۔ ختم شد
"زاد المعاد" (1/497)
تاہم کچھ سلف صالحین صبح کے وقت ، یا شام کے آغاز میں عیادت کو ترجیح دیتے تھے تا کہ فرشتے عیادت کرنے والے کے لیے زیادہ دیر تک رحمت کی دعا کریں، یعنی وہ سابقہ حدیث پر عمل کرنا چاہتے ہیں کہ جس میں ہے کہ: (کوئی بھی مسلمان کسی مسلمان کی صبح کے وقت عیادت کریں تو اس کے لیے 70 ہزار فرشتے شام تک رحمت کی دعا کرتے ہیں، اور اگر شام کے وقت عیادت کرے تو اس کے لیے تو 70 ہزار فرشتے صبح تک رحمت کی دعا کرتے ہیں، اور اسے جنت کا ایک باغ دے دیا جاتا ہے۔)
لیکن پھر بھی مریض کی حالت کو مد نظر رکھنا نہایت ضروری ہے کہ اس وقت میں عیادت کی جائے جب مریض کو سہولت ہو، اس لیے عیادت کرنے والا اپنی سہولت نہ دیکھے بلکہ یہ دیکھے کہ مریض یا مریض کے اہل خانہ کو کس وقت راحت ہو گی تب عیادت کے لیے جائے، عیادت کے لیے وقت طے کرنے کی غرض سے مریض یا مریض کے اہل خانہ سے براہ راست بات بھی کی جا سکتی ہے۔
کبھی ایسا بھی ممکن ہے کسی مریض کی عیادت کے لیے لوگ بہت زیادہ چکر لگائیں ، اور اس کے لیے وقت اور مریض کی حالت کا خیال بھی نہ رکھیں تو اس سے مرض مزید بڑھ جائے گا۔
مریض کے لیے دعا:
احادیث مبارکہ میں ثابت شدہ دعا پڑھے: لَا بَأْسَ ، طَهُوْرٌ إِنَ شَاءَ الله یعنی: کوئی بات نہیں، اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاکیزگی کا باعث ہے۔ صحیح بخاری
مریض کو شفا کی دعا تین بار دے، جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد بن ابو وقاص رضی اللہ عنہ کی عیادت فرمائی تو تین بار کہا: (یا اللہ! سعد کو شفا یاب فرما۔) اس حدیث کو امام بخاری: (5659) اور مسلم : (1628) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم عیادت کے دوران مریض پر تین بار ہاتھ پھیرتے اور فرماتے: أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ , وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي , لا شِفَاءَ إِلا شِفَاؤُكَ شِفَاءً لا يُغَادِرُ سَقَمًا یعنی: لوگوں کے رب بیماری دور لے جا، اور شفا یاب فرما دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے بغیر کوئی شفا نہیں ہے، ایسی شفا دے کہ کوئی بیماری باقی نہ چھوڑے۔
اس حدیث کو امام مسلم: (2191) نے روایت کیا ہے۔
اسی طرح مسند احمد اور ابو داود: (3106) میں ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (اگر کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے جائے اور مریض کا آخری وقت ابھی نہ آیا ہو، تو عیادت کرنے والا سات بار کہے: أَسْأَلُ اللَّهَ الْعَظِيمَ رَبَّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ أَنْ يَشْفِيَكَ یعنی: میں عظمت والے اور عرش عظیم والے رب سے سوال کرتا ہوں کہ تجھے شفا یاب فرمائے۔ تو اللہ تعالی اسے اس مرض سے شفا یابی عطا فرماتا ہے۔) اس حدیث کو البانی رحمہ اللہ نے صحیح ابو داود میں صحیح قرار دیا ہے۔
عیادت کرنے والا شخص مریض سے حال احوال بھی دریافت کرے، پوچھے کہ کیسا محسوس کر رہے ہو؟ یا ایسا ہی کوئی مناسب سوال پوچھ سکتا ہے؛ کیونکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے یہ چیز ثابت ہے، جیسے کہ ترمذی: (983) میں ہے اور اسے البانی نے حسن قرار دیا ہے۔
یہی چیز صحیح بخاری میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ثابت ہے کہ جب انہوں نے سیدنا ابو بکر اور بلال رضی اللہ عنہما کی عیادت کی تھی ۔
عیادت کرتے ہوئے مریض کا حوصلہ بڑھائے، اور زندگی کی امید دلائے؛ کیونکہ یہی چیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی عیادت کے دوران الفاظ سے بھی چھلکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لَا بَأْسَ ، طَهُوْرٌ إِنَ شَاءَ الله یعنی: کوئی بات نہیں، اللہ نے چاہا تو یہ بیماری گناہوں سے پاکیزگی کا باعث ہے۔
اس لیے عیادت کرتے ہوئے مریض کو تسلی دے، اور کوشش کرے کہ مریض سے ایسی باتیں کریں جس سے مریض اپنی تکلیف بھول جائے، اور اسے جلد از جلد اللہ تعالی کی مشیئت سے شفا یابی کی امید دلائے؛ اس طرح مریض کو عیادت کا فائدہ ہو گا اور مریض اپنے آپ کو ہلکا پھلکا محسوس کرے گا۔
مزید کے لیے دیکھیں: "الشرح الممتع" (5/171-176)
واللہ اعلم