جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم غلطی کرسکتے ہیں ۔

7208

تاریخ اشاعت : 19-06-2003

مشاہدات : 27159

سوال

میرا سوال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ہے ، بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ وہ معصوم ہیں اور ان سے گناہ سرزد نہیں ہوتے ، اور بعض کہتے ہیں کہ ان سے غلطی ہو سکتی ہے ،اور میرا شخصی طور پر یہ عقیدہ نہیں کہ وہ خطاء کے بغیر ہیں وہ اس لۓ کہ آپ بشر ہیں ، توکیا یہ ممکن ہے کہ آپ قرآن وسنت سے صحیح راۓ دے سکیں میں آپ کا مشکور ہوں ؟اور اللہ تعالی ہی بڑا ہے ۔

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول : آپ نے سوال میں لفظ خطایا استعمال کیاہے جس کا استعمال بہت بڑی غلطی ہے ، کیونکہ خطایا خطیئۃ کی جمع ہے جس کا معنی گناہ ہے جو کہ انبیاء ورسل سے ہونا محال ہے ، بلکہ صحیح یہ تھا کہ آپ اخطاء کا لفظ استعمال کرتے جس کا معنی غیر ارادی طور پر غلطی کرنا ہے اور پھر بعض اوقات غلطی عفوی ہوتی ہے لیکن گناہ کا معاملہ اس طرح نہیں ۔

دوم : اب رہا مسئلہ غلطی اور خطاء کا تو انبیاء اوررسل علیہم السلام اور ان میں سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں نے کبھی بھی ارادی طور پر رسالت کے بعد کوئ ایسی غلطی نہیں کی جو کہ اللہ تعالی کی معصیت میں ہو اوراس پر مسلمانوں کا اجماع ہے اور سب انبیاء ورسل علیہم السلام کبائر سے معصوم صغیرہ کے علاوہ ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہيں :

( یہ قول کہ انبیاء کبیرہ گناہ سے معصوم ہیں صغیرہ کے علاوہ اکثر علماء اسلام اور سب گروہوں کا قول ہے ، اوراسی طرح اہل تفسیر اور اہل حدیث اور اکثر فقھاء کا بھی یہی قول ہے ، بلکہ صحابہ اکرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اورسلف صالحین اور آئمہ اکرام اور تا بعین عظام اور تبع تابعین رحمہم اللہ جمیعا سے اس قول کے علاوہ اور کو‏ئ قول منقول نہیں ) مجموع الفتاوی ( 4/319 )

اوراسی موضوع کے بارہ میں مندرجہ ذیل سوال لجنہ دائمہ کے سامنے پیش کیاگیا :

سوال :

بعض لوگ ان میں سے ملحد قسم کے لوگ بھی ہیں یہ کہتے ہیں کہ : انبیاء ورسل سے غلطی سرزد ہوسکتی ہے ، یعنی وہ بھی باقی لوگوں کی طرح غلطی کا ارتکاب کرسکتے ہیں ۔

اور وہ یہ کہتے ہیں کہ : سب سے پہلی خطاء اورغلطی کا ارتکاب کرنے والا آدم علیہ السلام کا بیٹا قابیل تھا جس نے ھابیل کو قتل کیا ۔۔ اور داوود علیہ السلام نے اس وقت غلطی کی جب ان کے پاس دو فرشتے آۓ تو انہوں نے پہلے کی بات سن لی اور دوسرے کی نہ سنی ۔۔ اور اسی طرح یونس علیہ السلام کا قصہ جبکہ انہیں مچھلی نے نگل لیا ۔

اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا زید بن حارثہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ قصہ ، لوگ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نفس میں ایسی بات چھپائ تھی جس کا کہنا اور ظاہر کرنا واجب تھا ۔

اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے صحابہ کے ساتھ قصہ : جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ فرمایا کہ : تم اپنے دنیاوی معاملات کو زیادہ جانتے ہو ، تو وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں غلطی کی ۔

اوراسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نابینا صحابی کے ساتھ قصہ : وہ ترش رو ہوا اور منہ موڑ لیا ، ( صرف اس لۓ کہ ) اس کے پاس ایک نابینا آیا ۔

تو کیا حقیقتا انبیاء اور رسل غلیطی کا ارتکاب کرتے ہیں ، اور ہم ان گناہگار لوگوں کا رد کیسے کریں ؟

جواب :

جی ہاں انبیاء ورسل سے خطاء اور غلطی ہو سکتی ہے لیکن اللہ تعالی انہیں اس غلطی پر رہنے نہیں دیتا بلکہ ان پر اوران کی امتوں پر رحمت کرتے ہوۓ انہیں ان کی خطاء بتاکر اس لغزش کو معاف کر دیتا ہے اور اپنی رحمت وفضل سے ان کی توبہ قبول کرتاہے ، اور اللہ تعالی بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ، جس طرح کہ ان آیات میں غور فکر کرنے سے ظاہر ہوتا ہے جو اس سوال کے موضوعات کے متعلقہ ہیں ۔

اوریہ کہ آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹے باوجود اس کے وہ دونوں انبیاء میں سے نہیں پھر بھی اللہ عزوجل نے اس کا اپنے بھائ کے ساتھ غلط اور برے کام کوبیان کیاہے ۔۔ انتہی ۔

عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ - عبدالرزاق عفیفی - عبد اللہ بن غدیان - عبد اللہ بن قعود " فتاوی اللجنۃ الدائمۃ ( 3 / 194 ) فتوی نمبر 6290

سوم : اور رہا مسئلہ رسالت سے قبل کا تو علماء نے یہ کہا ہے کہ ہو سکتا ہے رسالت سے قبل ان سے بعض صغیرہ گناہ سرزد ہوں لکن کبیرہ اورہلاک کر دینے والے تو ممکن ہی نہیں مثلا زنا ، شراب نوشی ، وغیرہ تو نبوت سے قبل بھی وہ ان سے معصوم ہیں ۔

اورررہا یہ کہ رسالت ونبوت کے بعد تو صحیح بات یہی ہے کہ بعض اوقات ان سے صغیرہ ہوسکتے ہیں لیکن وہ ان پر ہی نہیں رہتے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :

اورجمہور علماء سے جو عام نقل کیا جاتاہے کہ وہ صغیرہ گناہوں سے معصوم نہیں لیکن وہ اس پر ثابت نہیں رہتے ، اور نہ ہی علماء یہ کہتے ہیں کہ ان سے ان کا کسی حال میں بھی وقوع نہیں ہوتا ۔

اورامت کے گروہوں میں سے عصمت مطلق کاقول سب سے پہلے نقل کیا گیا جو کہ رافضہ کا ہے اور وہ بہت بڑا ہے وہ یہ کہ وہ کہتے ہیں کہ جو بھول اور تاویل اور سھو بھی ہو وہ اس سے بھی معصوم ہیں ۔ مجموع الفتاوی ( 4 / 320 )

= انبیاء ورسل اللہ تعالی کی طرف سے دین کی تبلیغ میں معصوم ہیں :

شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

وہ آیات جو کہ انبیاء کی نبوت پر دلالت کرتی ہیں وہ اس چيز پر دلالت کرتی ہیں کہ انبیاء اللہ تعالی کی جانب سے جوبھی خبر دیتے ہیں اس میں وہ معصوم ہیں تو انکی وہ خبر حق ہی ہوتی ہے ، اور نبوت کا معنی بھی یہی ہے کہ اللہ عزوجل نبی کو غیب کی خبر دیتاہے اور نبی وہ غیبی خبر لوگوں تک پہنچاتاہے ، اوررسول اس بات کا مامور ہوتا ہے کہ وہ مخلوق کو دعوت اور ان کے رب کی رسالت کی تبلیغ کرے ۔ مجموع فتاوی ( 18/7 )

چہارم : اوروہ خطاء اورغلطی جو کہ بغیر قصد وارادہ کے ہوتی ہے وہ دو طرح کی ہے :

دنیاوی امور میں غلطی کرنا تواس کا وقوع ہوسکتاہے اور اس کےوقوع میں رسول بھی باقی انسانوں کی طرح بشر ہی ہیں اوریہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ہوئ ، وہ دنیاوی امور مثلا : زرعی اور طبی اورلکڑی وغیرہ کے کام وغیرہ کے معاملات میں ، وہ اس لۓ کہ اللہ تعالی نےہمیں یہ نہیں فرمایا کہ میں نے تمہاری طرف تاجر یا پھر مزارع یا ڈاکٹر وحکیم یا بڑھئ بھیجا ہے تو ان معاملات میں خطاءوغلطی فطرتی اور جبلی چیز ہے جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں کوئ جرح و قدح نہیں کرسکتی ۔

رافع بن خدیج رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ:نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لاۓ تو اہل مدینہ کھجوروں کی تلقیح کرتے تھے ، یعنی نر کھجورکا شگوفہ مادہ میں لگاتے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا یہ کیا کرتے ہو تو انہوں نے جواب دیا کہ ہم اسے ملاتے ہیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرتم یہ نہ کیا کرو تو تمہارے لۓ بہتر ہے ، تو انہوں نے یہ کام چھوڑدیا تو کھجوریں کم ہو‏ئیں جس کاانہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میں تو تمہاری طرح ایک بشر ہوں جب میں تمہيں تمہارے دین کے متعلق کوئ حکم دوں تو اسے قبول کرلیا کرو ، اور جب میں اپنی راۓ سے کوئ حکم دوں تو میں تمہاری طرح ایک بشر ہوں ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 2361 ) اور تابیرتلقیح کے معنی میں ہے ۔

تو ہم دیکھتے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مسئلہ میں خطا کرگۓ جو کہ ایک دنیاوی معاملہ نے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب انسانوں کی طرح ایک انسان ہیں لیکن وہ دینی معاملات میں خطا نہیں کرتے ۔

اوررہا یہ معاملہ کہ دینی معاملات میں غیر ارادی اورغیرقصد کے خطاء تو اس میں علماء کے اقوال میں سے راجح قول یہ ہے کہ اس طرح کی غیرارادی غلطی نبی سے ہو سکتی ہے لیکن یہ فعل کے اعتبار سے خلاف اولی ہے ۔

تو نبی علیہ السلام کو ایسا مسئلہ پیش آسکتا ہے جس کے بارہ میں اسکے پاس شرعی نص نہیں جس کی طرف رجوع کرکے اسے حل کرے تو نبی علیہ السلام اسے اپنی راۓ سے حل کرتے ہیں جس طرح کہ علماۓ اسلام میں سے کو‎ئ عالم اجتہاد کرے تو اگر وہ اجتہاد صحیح ہو تواسے ڈبل اجر ملتا ہے اور اگر اس میں وہ خطا کرلے تو اسے ایک اجرملتاہے ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی اسی طرح ہے کہ ( جب کوئ حاکم فیصلہ کرتے ہوۓ اجتھاد کرتا ہے تو اگر اس کا اجتھاد صحیح ہو تو اسے ڈبل اجر ملے گا او ر اگر اس نے اجتھاد کیا اور اس میں غلطی کربیٹھا تو اسے ایک اجر ملے گا ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 6919 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1716 ) اسے ابو ھریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت فرمایا ہے ۔

تو ایسا ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ بدر کے قیدیوں کے بارہ میں ہو بھی ۔

انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے جنگ بدر کے دن قیدیوں کے متعلق مشورہ کرتے ہو‎ۓ فرمایا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان میں سےکچھ لوگوں کو تمہاری قید میں دے دیا ہے ، تو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی کھڑے ہوۓ اورکہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی گردنیں اتار دیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر دوبارہ کہا کہ اللہ تبارک وتعالی نے ان میں سے کچھ لوگوں کو تمہاری قید میں دے دیا ہے حالانکہ کل تک تو وہ تمہارے بھائ تھے ۔

تو راوی کہتے ہیں کہ عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی کھڑے ہوۓ اورکہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کی گردنیں اتار دیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اعراض کرلیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آۓ اور لوگوں کے سامنے وہی بات دہرائ‏ ، تو ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوۓ اور کہنے لگے اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اگر آپ پسند فرمائيں تو انہیں معاف کر کے ان سے فدیہ وصول کر لیں ۔

تو راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چھرہ انور سے وہ غم جاتا رہا جو کہ اس سے پہلے تھا ، تو راوی بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں معاف فرما دیا اور ان سے فدیہ قبول کرلیا ۔

راوی بیان کرتے ہیں کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی :

نبی (صلی اللہ علیہ وسلم ) کے لۓ یہ مناسب نہیں تھا کہ ان کے پاس قیدی ہوں قبل اس کے کہ وہ زمین میں کافروں کا خوب قتل کر لیتے تم لوگ دنیاوی فائدے چاہتےتھے ، اور اللہ تعالی تمہارے لۓ آخرت کی بھلائ چاہتا تھا اور اللہ تعالی زبردست بڑی حکمتوں والا ہے ، اگر اللہ تعالی کی طرف سے ایک بات پہلے سے لکھی نہ جاچکی ہوتی تو تم نے جو مال قیدیوں سے لیا ہے اس کےسبب سے ایک بڑا عذاب تمہیں آلیتا الانفال / 66-67 مسند احمد حدیث نمبر ( 13143 )

تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اس حادثہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس مسئلہ میں کوئ صریح اور واضح نص نہیں تھی کہ قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جاۓ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجتھاد اور اپنے صحابہ سے مشورہ کیا تو ترجیح میں خطاہوگئ کہ اولی تو یہ تھا کہ انہیں قتل کیا جاۓ تاکہ کفر کی کمر ٹوٹ جاۓ اورفدیہ لینا جائز تھا تو آپ نے کم تر چیز کو اختیار کیا جس میں خطا ہوگئ‏ تو اللہ تعالی نے یہ آیا ت نازل فرمادیں ۔

تواس طرح کہ حادثات و واقعات حدیث اور سنت میں بہت ہی کم ہیں تو ہمارے لۓ یہ واجب ہے کہ ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ انبیاء ورسل معصوم ہیں اور وہ اللہ تعالی کی نافرمانی اور معصیت نہیں کرتے ۔

اورہمیں انتہائ زیادہ متنبہ رہنا چاہۓ کہ جو یہ کہہ کر کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی امور میں خطا کرسکتے ہیں اس کا ارادہ ہو کہ وہ وحی میں طعن کرے ، حالانکہ ان دونوں دینی اور دنیاوی امورمیں بہت فرق ہے ، اور ایسے ہی ہم ان گمراہ لوگوں سے بھی ہوشیار رہیں جو یہ کہتے ہیں کہ بعض وہ احکام شرعیہ جو کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بتاۓ ہیں وہ اجتھادات شخصیہ ہیں ان میں خطاء وصواب کا امکان ہے ، ان گمراہ لوگوں کو اللہ تعالی کایہ فرمان نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

اوروہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش سے تو بولتے ہی نہیں یہ تو وحی ہے جو کہ ان کی طرف وحی کی جاتی ہے ۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ہمیں انحراف سے دور رکھے اورگمراہی سے بچاۓ ، آمین ۔

واللہ تعالی اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب