الحمد للہ.
سنت يہى ہے كہ شہيد كو اسى لباس ميں دفن كيا جائے جس ميں اس نے شہادت پائى ہے.
ديكھيں: بدائع الصنائع ( 2 / 368 ) مواھب الجليل ( 2 / 294 ) المجموع ( 5 / 229 ) المغنى ابن قدامہ ( 3 / 471 ).
اس سلسلے ميں كئى ايك احاديث وارد ہيں:
1 - امام احمد رحمہ نے حديث بيان كى ہے كہ غزوہ احد والے روز رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" انہيں ان كے لباس ميں ہى لپيٹ دو "
مسند احمد حديث نمبر ( 33144 ) علامہ البانى رحمہ اللہ تلخيص احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 36 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
2 - جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" ايك شخص كو سينے ميں، يا اس كے حلق ميں تير لگ گيا تو وہ مر گيا تو اسے اسى لباس ميں دفن كر ديا گيا جس طرح تھا، راوى كہتے ہيں اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3133 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے، اور حافظ بن حجر رحمہ اللہ نے " التلخيص " ( 2 / 118 ) ميں كہا ہے كہ اس كى سند صحيح اور مسلم كى شرط پر ہے.
3 - خباب بن ارت رضى اللہ عنہ بيان كرتے ہيں كہ:
" جب احد والے دن مصعب بن عمير رضى اللہ عنہ قتل ہوئے تو انہوں نے صرف ايك چٹائى چھوڑى، جب ہم اس سے ان كے سر كو ڈھانپتے تو ان كے پاؤں ننگے ہوجاتے، اور جب اس سے ان كے پاؤں ڈھانپے جاتے تو ان كا سر باہر نكل آتا، تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم ہميں فرمانے لگے:
" اس سے اس كا سر ڈھانپ دو، اور اس كے پاؤں پر اذخر گھاس ڈال دو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 4047 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 940 ).
فقھاء كرام كا نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے اس حكم " شھداء كو ان كے لباس ميں ہى دفن كر دو " كے متعلق اختلاف پايا جاتا ہے كہ آيا يہ حكم استحباب اور اوليت اور اعلى كے اعتبار سے ہے يا كہ وجوب كے اعتبار سے ؟
اس ميں فقھاء كے دو قول ہيں:
پہلا قول:
يہ حكم بطور استحباب ہے، شافعيہ كا قول يہى ہے اور بعض حنابلہ بھى اس كے قائل ہيں.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" پھر اسے اختيار ہے كہ اگر چاہے تو وہ اسى لباس ميں اسے دفن كر دے، اور اگر چاہے تو اسے اتار كر دوسرے كفن ميں دفن كرے، اور اس كا ترك كرنا افضل ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 229 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور يہ حتمى حكم نہيں، ليكن اولى اور بہتر ہے، اور ولى كو حق حاصل ہے كہ اس كا لباس اتار لے اور اس كے علاوہ كسى اور كپڑے ميں كفن پہنائے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 471 ).
اس كے عدم وجوب پر مسند احمد كى درج ذيل روايت سے استدلال كيا ہے:
زبير رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ان كى ماں صفيہ ( جو كہ حمزہ رضى اللہ عنہ كى ہمشيرہ تھيں ) احد والے دن دو كپڑے لائيں اور كہنے لگيں: مجھے پتہ چلا تھا كہ ميرا بھائى حمزہ شہيد ہو گيا ہے تو ميں يہ دو كپڑے لائى ہوں تا كہ اسے كفن ديا جائے, راوى كہتے ہيں: ہم وہ دو كپڑے لائے تا كہ حمزہ رضى اللہ تعالى عنہ كو ان ميں كفن ديں تو حمزہ رضى اللہ تعالى عنہ كے پہلو ميں ايك انصارى شخص مقتول پڑا تھا جس كے ساتھ بھى وہى كچھ كيا گيا تھا جو حمزہ رضى اللہ عنہ كے ساتھ كيا گيا.
راوى كہتے ہيں: ہميں حياء اور شرم نے آگھيرا كہ انصارى شخص كا كوئى كفن نہيں اور ہم حمزہ رضى اللہ تعالى عنہ كو دو كپڑوں ميں كفن ديں تو ہم نے كہا كہ ايك كپڑا حمزہ رضى اللہ عنہ كو اور ايك كپڑا انصارى كو تو ہم نے ان دونوں كپڑوں كو ديكھا تو ايك بڑا اور دوسرا چھوٹا تھا لہذا ہم نے ان دونوں كے درميان قرعہ اندازى كى اور جس كے نام جو كپڑا نكلا اس ميں اسے كفن دے ديا "
مسند احمد حديث نمبر ( 1421 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے احكام الجنائز صفحہ نمبر ( 62 ) ميں اس حديث كو حسن قرار ديا ہے.
دوسرا قول:
يہاں امر وجوب كے ليے ہے، مالكى، اور حنابلہ كا مسلك يہى ہے، اور ابن قيم اور شوكانى رحمہ اللہ نے اسے ہى اختيار كيا ہے.
المرداوى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
مذہب ميں صحيح يہى ہے كہ شہيد كو انہي كپڑوں ميں دفن كرنا واجب ہے جس ميں وہ شہيد ہوا ہو"
ديكھيں: الانصاف ( 6 / 94 ).
اور امام مالك رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اگر اس كا ولى اس پر جو كچھ ہے اس سے زيادہ كرنا چاہے حالانكہ كفن ميں جو كفائت كرتا ہے وہ تو حاصل ہو چكا ہے، تو اسے زيادہ كرنے كا حق نہيں، اور اس پر كوئى چيز زائد نہ كرے " انتہى.
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 294 ).
اور امام شوكانى رحمہ اللہ " نيل الاوطار " ميں كہتے ہيں:
" اور ظاہر يہى ہوتا ہے كہ شہيد كو اسى لباس ميں دفن كرنے كا حكم جس ميں وہ شہيد ہوا تھا وجوب كے ليے ہے " انتہى.
ديكھيں: نيل الاوطار ( 4 / 50 ).
انہوں نے حمزہ رضى اللہ والى حديث كا جواب يہ ديا ہے كہ: انہيں ايك اور كفن ميں كفنايا گيا تھا، كيونكہ كفار نے ان كا مثلہ كر كے ان كا ناك كان وغيرہ كاٹ ديے تھے، اور ان كا پيٹ بھى پھاڑ كر كليجہ نكال ليا اور ان كے كپڑے لے گئے تھے اس ليے انہيں دوسرے كفن ميں كفن ديا گيا.
يہ قول ابن قيم كا ہے، ديكھيں: زاد المعاد ( 3 / 217 ).
ابن رشد رحمہ اللہ كہتے ہيں:
جسے دشمن بے لباس كر دے اسے كفن نہ پہنانے ميں كوئى رخصت نہيں، بلكہ اسے كفن پہنانا لازم ہے، احد والے دن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك كپڑے ميں دو دو آدميوں كو كفن ديا تھا " انتہى.
ماخوذ از: مواھب الجليل ( 2 / 294 ).
مسئلہ:
كيا شہيد نے جو لوہے كى درعہ اور اسلحہ اور فرو اور موزے اور ٹوپى اور خود وغيرہ پہن ركھا ہو اسے بھى اتارا جائيگا ؟
لوہے اور اسلحہ كے متعلق تو علماء كرام متفق ہيں كہ اسے اتار ليا جائيگا.
ابن القاسم " المدونۃ " ميں كہتے ہيں: اس كى درعہ، تلوار، اور سارا اسلحہ اتار ليا جائيگا " انتہى.
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 294 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
علماء كرام كا اس پر اجماع ہے كہ لوہا، اور چمڑا اس سے اتار ليا جائيگا " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 229 ).
نووى رحمہ اللہ كے قول " چمڑا " سے ظاہر يہى ہوتا ہے كہ اس سے مراد اسلحہ اور آلات حرب ہيں، كيونكہ انہوں نے فرو اور موزے كے متعلق ايك سطر قبل اختلاف بيان كر چكے ہيں، تو اس چمڑے سے مراد يہاں اسلحہ مثلا جعبہ اور تھيلا جس كے ساتھ تلوار لٹكائى جاتى ہے، يا جس ميں تير ہوتے ہيں، اور اس طرح كى دوسرى اشياء مراد ہيں.
اس كا استدلال انہوں نے درج ذيل دلائل سے كيا ہے:
1 - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جنگ احد ميں شہيد ہونے والوں كا لوہا اور چمڑا اتارنے كا حكم ديا تھا، اور يہ حكم ديا كہ انہيں ان كے خون اور لباس سميت ہى دفن كيا جائے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3134 )، ليكن اس حديث كو حافظ ابن حجر نے " التلخيص ( 2 / 118 ) ميں اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے ضعيف ابو داود ميں ضعيف قرار ديا ہے.
2 - ليكن اس ضعيف حديث كو درج ذيل حديث مستغنى كر ديتى ہے:
رسول كريم صلى ا للہ عليہ وسلم نے احد والے دن فرمايا:
" اپنے ساتھيوں كو ان كے كپڑوں ميں ہى ڈھانپ دو "
مسند احمد حديث نمبر ( 33144 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے تلخيص احكام الجنائز صفحہ ( 36 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
لوہا اور اسلحہ كپڑوں ميں شامل نہيں ہوتے اس ليے وہ اس حديث كے تحت داخل ہونگے.
مزيد ديكھيں: بدائع الصنائع ( 2 / 368 ) المغنى ابن قدامہ ( 3 / 471 ).
رہى فرو، موزے، اور ٹوپى اور كمر ميں باندھى جانے والى بيلٹ اسے ا تارنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے:
پہلا قو:
اسے نہيں اتارا جائيگا، مالكى حضرات كا مسلك يہى ہے.
خطاب كہتے ہيں كہ:
ابن القاسم كا كہنا ہے .... اور جس پر كوئى كپڑا ہو يا فرو، يا موزا يا ٹوپى، تو اس ميں كوئى چيز بھى نہيں اتارى جائيگى.
مطرف كہتے ہيں: اور نہ ہى اس كى انگوٹھى اتارى جائيگى، ليكن اگر اس كا نگينہ قيمتى ہو تو پھر اتارى جا سكتى ہے، اور نہ ہى اس كى بيلٹ ليكن اگر اس كے ليے وہ خطرے كا باعث ہو، يعنى قيمتى ہو " انتہى.
ديكھيں: مواھب الجليل ( 2 / 294 ).
اور انہوں نے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا شھداء احد كے متعلق اس فرمان سے استدلال كيا ہے كہ:
" انہيں ان كے كپڑوں سے ہى ڈھانپ دو "
اور يہ سب كپڑوں كو عام ہے.
دوسرا قول:
انہيں اتار ليا جائيگا، احناف، شافعيہ، اور حنابلہ مسلك يہى ہے.
انہوں نے درج ذيل دلائل سے استدلال كيا ہے:
1 - ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے شھداء احد كے متعلق حكم ديا كہ ان سے لوہا اور چمڑا اتار ليا جائے، اور انہيں ان كے خون اور كپڑوں ميں ہى دفن كيا جائے "
ليكن يہ حديث ضعيف ہے جيسا كہ اوپر بيان ہو چكا ہے.
2 - على رضى اللہ تعالى عنہ نے بيان كى جاتا ہے كہ انہوں نے كہا:
" شہيد كى فرو اور موزا اور ٹوپى اتار لى جائيگى "
علامہ شوكانى رحمہ اللہ نے نيل الاوطار ( 4 / 50 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
اور الكاسائى كا كہنا ہے:
اور يہ اس ليے كہ جو ترك كيا جاتا ہے وہ اس ليے تا كہ وہ كفن بن سكے، اور كفن وہ چيز بنتى ہے جو ستر چھپانے كے ليے پہنى جائے، اور يہ اشياء يا تو خوبصورتى اور زينت كے ليے پہنى جاتى ہيں، يا پھر سردى روكنے كے ليے، يا اسلحہ كى تكليف دور كرنے كے ليے، اور ميت كو اس كى كوئى ضرورت نہيں، تو اس طرح يہ اشياء كفن نہيں بن سكتيں، اس سے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے فرمان: " انہيں ان كے كپڑوں سے ڈھانپ دو " كى مراد واضح ہوئى كہ وہ كپڑے جن سے كفن ديا جاتا اور ستر چھپانے كے ليے پہنے جاتے ہيں " انتہى.
ديكھيں: بدائع الصنائع ( 2 / 368 - 369 )، اور ديكھيں: المجموع للنووى ( 5 / 229 ) اور المغنى ( 3 / 471 ).
واللہ اعلم .