الحمد للہ.
آپ كى جانب سے ہميں سوال نمبر ( 72320 ) موصول ہوا ہے جس ميں آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ كا والد آپ كے نام فليٹ لكھ كر دينے پر متفق ہے، ليكن آپ كى والدہ نے آپ كے يا آپ كے خاوند يا آپ كے نام فليٹ لكھ كر دينے سے انكار كيا ہے.
آپ كے خاوند كے ليے آپ كے نام فليٹ لگانے ميں كوئى حرج نہيں، اور آپ كى والدہ كو اس سے انكار كرنے كا كوئى حق نہيں ہے.
بہر حال: آپ كے خاوند كى كوئى اور بيوى نہيں ہے كہ وہ آپ كو فليٹ دے اور اسے نہ دے تو اشكال پيدا ہو سكتا تھا ليكن جب اس كى دوسرى بيوى ہى نہيں تو يہ اشكال نہيں ہو سكتا اس ليے اسے آپ كو فليٹ دينے ميں كوئى حرج نہيں.
رہا يہ مسئلہ كہ وہ اپنى نصف ملكيتى اشياء آپ كے نام لگا دے تو اس ميں بھى كوئى حرج نہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ اس ميں اس پر كوئى دباؤ نہ ہو اور وہ كام راضى و خوشى اپنى مرضى سے كرے، اور آپ كى جانب سے اس پر اصرار بھى نہ ہو.
اور نہ ہى خاوند كا اپنے ورثاء پر تنگى مقصود ہو، كيونكہ جب انسان صحيح اور تندرست ہو اور وہ مرض الموت ميں نہ ہو تو اسے اپنى بيوى يا كسى دوسرے كو اپنے مال سے جو چاہے ہبہ و عطيہ كرنے كا حق حاصل ہے.
اس ليے آپ كو اصرار كرنے كا كوئى حق نہيں كہ خاوند سے اپنے نام كچھ لگانے كا مطالبہ كريں، كيونكہ ہو سكتا ہے وہ آپ سے حياء كرتے ہوئے آپ كے نام كچھ لگا دے ليكن وہ دل سے اس پر راضى نہ ہو، تو اس طرح يہ چيز آپ كے ليے حرام ہو جائے.
اور خاوند كے ليے افضل و بہتر يہى ہے كہ وہ ايسا مت كرے، كيونكہ ايسا كرنے سے اس كے اور اس كے والدين كے مابين اختلافات كا باعث بن سكتا ہے، اور پھر قطع رحمى كا باعث بنےگا، اس ليے اولى اور بہتر يہى ہے كہ معاملہ ويسا ہى رہنا ديا جائے جس طرح ہے، يہ بھى علم ميں رہے كہ اس كا كوئى علم نہيں كہ اس كا وارث كون بنےگا اور كون وارث نہيں بنے گا! اس كا علم تو صرف اللہ كو ہى ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كو نيك و صالح اولاد نوازے، اور آپ اور آپ كے خاوند كو خير و بھلائى پر جمع ركھے.
واللہ اعلم .