الحمد للہ.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مال ضائع كرنے اور كسى كسى غير نفع والى جگہ ميں صرف كرنے سے منع فرمايا ہے.
مغيرہ بن شعبہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ ميں نے نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو يہ فرماتے ہوئے سنا:
" اللہ تعالى نے تمہارے ليے تين چيزيں ناپسند كى ہيں: قيل و قال اور مال ضائع كرنا، اور كثرت سے سوال كرنا "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1407 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 593 ).
مال ميں بہتر تصرف نہ كرنا، اور اسے برے طريقہ سے صرف كرنے كو اہل علم فساد شمار كرتے ہيں، جيسا كہ امام بخارى رحمہ اللہ نے صحيح بخارى ميں باب باندھتے ہوئے كہا ہے:
" باب ما ينھى عن اضاعۃ المال، وقول اللہ بتارك و تعالى: واللہ لايحب الفساد "
مال ضائع كرنے كى ممانعت اور اللہ تعالى كے فرمان: اور اللہ تعالى فساد كو پسند نہيں كرتا كے متعلق باب "
ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 68 ).
اور بعض اوقات انسان عقل مند تو ہوتا ہے، ليكن اس كے باوجود وہ مال ميں اچھا اور بہتر تصرف نہيں كر سكتا، بلكہ وہ مال ضائع كرتا اور اسے غير نفع والى جگہوں ميں صرف كرتا رہتا ہے، علماء كرام اسے سفيہ اور بےوقوف كا نام ديتے ہيں، تو ايسے شخص كو مال دينا جائز نہيں، بلكہ اسے مال ميں تصرف كرنے سے روك ديا جائيگا كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
اور تم سفھاء اور بےوقوفوں كو اپنا وہ مال نہ دو جسے اللہ تعالى نے تمہارى گزران كا ذريعہ بنايا ہے النساء ( 5 ).
قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" يہ آيت سفيہ اور بےوقوف كو مال نہ دينے كے جواز پر دلالت كرتى؛ كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى نے اس كا حكم ديتے ہوئے فرمايا ہے:
اور تم اپنا مال بے وقوفوں كو نہ دو .
اور يہ بھى فرمايا ہے:
اور اگر وہ شخص جس پر حق ہو وہ سفيہ اور بےوقوف ہو، يا كمزور .
تو جس طرح كمزور پر ولى ثابت كيا ہے، اسى طرح سفيہ اور بےوقوف پر بھى ولى ثابت كيا ہے، اور ضعيف كا معنى چھوٹے بچے كى طرف پلٹا ہے، اور سفيہ اور بے وقوف كا معنى كبير اور بالغ كى جانب " انتہى.
ديكھيں: تفسير قرطبى ( 5 / 30 ).
اور ابن حجر رحمہ اللہ كہتے ہيں:
قولہ تعالى: اور تم اپنا مال سفھاء اور بےوقوفوں كو مت دو..... الآيۃ
طبرى رحمہ اللہ ـ سفھاء كے متعلق مفسرين كے اقوال بيان كرنے كے بعد ـ كہتے ہيں:
" اور ہمارے نزديك صحيح يہ ہے كہ يہ ہر سفيہ اور بےوقوف كے متعلق عام ہے، چاہے وہ چھوٹا ہو يا بڑا، اور مرد ہو يا عورت، اور سفيہ اور بےوقوف وہ ہوتا ہے جو مال ضائع كرے، اور اپنى برى تدبير كى بنا پر مال ختم كر كے ركھ دے " انتہى.
اور ابن حجر كا يہ بھى كہنا ہے:
" اور حجر يعنى ركاوٹ اور پابندى شريعت كى اصطلاح ميں يہ ہے كہ: مال ميں تصرف كرنے سے روك دينا، بعض اوقات تو يہ پابندى اس ليے لگائى جاتى ہے كہ اس ميں ہى اس شخص كے ليے مصلحت ہوتى ہے، اور بعض اوقات مال كى مصلحت كى بنا پر پابندى لگائى جاتى ہے، اور جمہور علماء كرام بڑے شخص پر بھى پابندى اور روك لگانے كے قائل ہيں " انتہى
ديكھيں: فتح البارى ( 5 / 68 ).
اس ليے اگر آپ كا والد مال ميں بہتر تصرف نہيں كر سكتا، بلكہ اسے غير نفع والى جگہوں ميں صرف كر كے ضائع كر رہا ہے تو اس پر پابندى لگانى واجب ہے، اور اسے مال دينا جائز نہيں، اور آپ كى والدہ كو چاہيے كہ جو وكالہ اور مختار نامہ ديا ہے اسے ختم كر دے، تا كہ آپ كے مال كى حفاظت ہو سكے، اور ضائع ہونے سے بچ رہے، اور تمہيں اس مال كى ضرورت بھى ہے.
اور آپ كو چاہيے كہ اپنے والد كو وعظ و نصيحت كريں، اور اچھى بات اور كلام سے اس كى راہنمائى كريں جو اسے مال ميں كوتاہى برتنے پر نادم كرے، اور وہ اپنے باقى مانندہ مال كى حفاظت كرنےلگے.
اسے آپ ان احاديث كے ساتھ ياد دہانى اور نصيحت كر سكتے ہيں جن ميں مال ضائع كرنے سے ڈانٹا گيا اور منع كيا گيا ہے، اور آپ اسے يہ ياد دلائيں كہ اللہ تعالى نے آپ كے كندھوں پر تمہارى پرورش اور خيال ركھنے كى ذمہ دارى ڈالى ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں بيان ہوا ہے:
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" آدمى كے ليے گناہ بطور گناہ يہى كافى ہے كہ وہ اپنى گود ميں پرورش پانے والوں كو ضائع كر دے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1692 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحي الترغيب حديث نمبر ( 1965 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
اور شيخ عبد العظيم آبادى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" خطابى رحمہ اللہ كا كہنا ہے: اس سے مراد وہ افراد ہيں جن كا نان و نفقہ اس كے ذمہ ہے، اور معنى يہ ہوا كہ: گويا كہ صدقہ كرنے والے شخص كو يہ كہا جا رہا ہے كہ: اجروثواب حاصل كرنے كے ليے وہ مال صدقہ نہ كرو جو تمہارے اہل و عيال كے اخراجات سے زيادہ نہ ہو، كيونكہ يہ اجر آپ پر الٹ جائيگا، كيونكہ جب آپ انہيں ضائع كرينگے تو يہ اجر الٹ كر گناہ بن جائيگا " انتہى
ديكھيں: عون المعبود ( 5 / 76 ).
تو اگر يہ صدقہ كرنے والے كے حق ميں ہے تو پھر اس كے علاوہ اس شخص كے متعلق كيسے ہو گا جو اپنا مال كسى ايسى جگہ ضائع كرے جس ميں كوئى فائدہ نہ ہو.
واللہ اعلم .