جمعہ 26 جمادی ثانیہ 1446 - 27 دسمبر 2024
اردو

گھر ميں باجماعت نماز ادا كرنا

72398

تاریخ اشاعت : 15-05-2007

مشاہدات : 5863

سوال

كيا مسجد ميں جانے كى بجائے گھر ميں ہى نماز باجماعت ادا كرنى جائز ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

ہم انہيں نصيحت كرتے ہوئے كہتے ہيں كہ وہ اللہ سے ڈريں اور اس كا تقوى اختيار كرتے ہوئے مسلمانوں كے ساتھ مسجد ميں جا كر نماز باجماعت ادا كريں، كيونكہ اس مسئلہ ميں اہل علم كا راجح قول يہى ہے كہ نماز باجماعت مسجد ميں ادا كرنى واجب ہے، اور بغير كسى شرعى عذر كے مسجد ميں نماز باجماعت سے پيچھے رہنا جائز نہيں.

كيونكہ حديث ميں نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميرا ارادہ ہے كہ ميں نماز كى اقامت كا حكم دوں اور پھر كسى شخص كو نماز پڑھانے كا حكم دے كر اپنے ساتھ ايندھن اٹھائے ہوئے افراد كو لے كر جاؤں اور جو لوگ نماز باجماعت كى ادائيگى كے ليے نہيں آتے انہيں گھروں سميت جلا كر راكھ كر دوں "

ہو سكتا ہے ان لوگوں نے نماز ادا كر لى ہو، ليكن رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے يہ چاہا كہ وہ نماز باجماعت اس كے ساتھ ادا كريں جنہيں شريعت نے مقرر كيا ہے، اور شريعت نے انہيں مقرر كيا ہے جو لوگ مسجد ميں نماز ادا كرتے ہيں، اور مساجد بھى وہ جہاں نماز كے ليے اذان ہوتى ہے، اسى ليے عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ كا فرمان ہے:

" جس شخص كو يہ اچھا لگتا ہے كہ وہ كل اللہ تعالى كو مسلمان ہو كر ملے تو اسے وہاں نمازوں كى ادائيگى كرنى چاہيے جہاں نماز كے ليے اذان ہوتى ہے"

ان كا كہنا: " جہاں اس كے ليے اذان ہوتى ہے" جہاں ( حيث ) ظرف مكان ہے، يعنى وہ نماز وہاں ادا كرے جس جگہ اس كى اذان ہوتى ہے، اور نماز پنچگانہ ميں ہے.

اور نماز جمعہ تو قطعى طور پر مسجد ميں ادا كرنا واجب ہے.

اور نفلى نماز كے متعلق نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" فرضى نماز كے علاوہ افضل نماز گھر ميں ادا كرنا ہے "

چنانچہ اس بنا پر انسان كو چاہيے كہ وہ نفلى نماز گھروں ميں ادا كرے ليكن جو نفلى نماز مسجد ميں ادا كرنى مشروع ہے وہ مسجد ميں ہى ادا كرنى ہو گى، مثلا چاند يا سورج گرہن كى نماز، جبكہ اس كے غير واجب ہونے كا قول اختيار كيا جائے. انتھى

فضيلۃ الشيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 19 ).

اور شيخ رحمہ اللہ تعالى كا يہ بھى كہنا ہے:

" كسى ايك يا كسى جماعت كے ليے مسجد قريب ہونے كى صورت ميں فرضى نماز گھر ميں ادا كرنا جائز نہيں، ليكن اگر مسجد دور ہو اور انہيں اذان كى آواز سنائى نہ دے تو پھر گھر ميں نماز باجماعت ادا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.

اس مسئلہ ميں لوگوں كى سستى و كاہلى اس قول پر مبنى ہے كہ بعض علماء رحمہم اللہ كا قول ہے كہ نماز باجماعت سے مراد يہ ہے كہ لوگ باجماعت اكھٹے نماز ادا كريں چاہے مسجد كے علاوہ كہيں اور ہى كيوں نہ ہو، اگر لوگ اپنے گھروں ميں نماز باجماعت ادا كرليں تو ان كا واجب ادا ہو جائيگا.

ليكن صحيح يہى ہے كہ جماعت مسجد ميں كروائى جائے، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ميں نے ارادہ كيا كہ نماز كى اقامت كا حكم دوں، اور نماز كى اقامت كہى جائے ....... " اور انہوں نے مندرجہ بالا حديث ذكر كى ہے" انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 15 / 20 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب