الحمد للہ.
تيار شدہ سونا ڈھلے ہوئے خالص سونے اور اس تيار كرنے كى اجرت كے ساتھ فروخت كرنا حرام ہے، وہ اسطرح كہ: ايك كلو تيار شدہ سنا دے كر اس كے مقابلے ميں ـ اسى وقت ـ ايك كلو سے زيادہ ڈھلا ہوا سونا لينا بناوٹ كے فرق سے، يا پھر ايك كلو سونا اور تيارى كے بدلے نقد رقم لے تو يہ حرام ہے، اور يہ ربا الفضل يعنى زيادہ سود ميں شامل ہوتا ہے.
كيونكہ جب سونا فروخت كيا جائے تو وہ برابر برابر ہونا ضرورى ہے چاہے وہ تيار شدہ ہو يا ڈھلا ہوا ہو، اسى ليے فقھاء كرام كا كہنا ہے كہ: ان دونوں كے ڈلے ( خام ) اور تيار شدہ ( جو كہ زيورات كى شكل ميں تيار ہوتا ہے ) يا اس كے سكے بنے ہوں ( نقدى ) برابر برابر ہو، تيارى اور صنعت كا كوئى اعتبار نہيں ہوگا.
اور اگر معاملہ نقد اور ہاتھوں ہاتھ نہ كيا جائے تو يہ ربا النسيئۃ يعى ادھار سود ہوگا، تو اس طرح يہ معاملہ سود كى دو قسموں ربا النسيئۃ اور ربا الفضل پر مشتمل ہوگا.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اچھا اور ردى، ڈلا اور سكہ ميں ڈھلا ہوا، صحيح اور ٹوٹا ہوا، جائز فروخت ميں برابر برابر اور ايك جيسا ہونا چاہيے، اور اگر زيادہ ہو تو يہ حرام ہے، اكثر اہل علم كا قول يہى ہے، جن ميں ابو حنيفہ، اور شافعى شامل ہيں، اور امام مالك سے اس كا جواز بيان كيا جاتا ہے كہ مضروب يعنى سكہ ميں ڈھال كر اس كى جنس كے ساتھ ہى قيمت ميں فروخت كرنا صحيح ہے، ليكن ان كے اصحاب نے اس كا نكار كيا ہے، اور اس كى ان سے نفى كى ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ( 4 / 29 ).
اور الموسوعۃ الفقھيۃ ميں درج ہے:
" جمہور فقھاء كا مسلك ہے كہ: خالص سونا اور خام سونا، صحيح اور ٹوٹا ہوا بيع كے جائز ہونے ميں سب برابر اور مقدار ميں اتنا ہى ہونا چاہيے، اور زيادہ ہو تو حرام ہے.
خطابى رحمہ اللہ كہتے ہيں: رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ايك مثقال خالص سونا ايك مثقال خام سونا جو كہ سكوں ميں ڈھلا ہوا نہ ہو سے كچھ زيادہ كے ساتھ فروخت كرنا حرام كيا ہے، اور اسى طرح ڈھلى ہوئى چاندى اور خام چاندى كى فروخت ميں زيادہ كو حرام كيا ہے، نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے درج ذيل فرمان كا معنى يہى ہے:
" سونا سونے كے ساتھ اس كا خام اور نقد بھى " انتہى.
سنن ابو داود حديث نمبر ( 3349 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
ديكھيں: الموسوعۃ الفقھيۃ ( 22 / 74 ).
درہم اور دينار ميں تبر اس كو كہتے ہيں جو ابھى ڈھالا نہ گيا اور سكہ نہ بنايا گيا ہو، جب اسے ڈھالا جائے تو وہ عين يعنى نقدى بن جاتا ہے، اور يہ تبر يعنى خام سے بہتر اور جيد ہوتا ہے.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 10 / 97 ) كشف الاسرار ( 3 / 320 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء سے درج ذيل سوال كيا گيا:
ايك سنار سونا تيار كرنے كى اجرت ليتا ہے، اور يہ اس طرح ہوتى كہ يا تو اس صورت ميں ہوتى ہے كہ سونا فروخت كرتا ہے اور اس كى قيمت مزدورى اور اجرت كے ساتھ ليتا ہے، يا پھر سونا سونے كے ساتھ بدل كر تيار كرنے كى اجرت ليتا ہے اس ميں اس كى كمائى بھى ہے اس كا حكم كيا ہے ؟
تو كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
فروخت كردہ سونے كے ساتھ سونے كے زيور تيار كرنے كى قيمت وصول كرنے ميں كوئى حرج نہيں، جب وہ سونا اور زيور اس كى جنس كے علاوہ كسى اور چيز كے ساتھ فروخت كيا جائے، مثلا كاغذ كے نوٹوں ميں، ليكن اگر سونا اس كى جنس كے ساتھ سونے كے بدلے اور اس كى مزدورى ليكر فروخت كيا جائے تو يہ جائز نہيں.
كيونكہ صحيحين ميں ابو سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے حديث مروى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم سونا سونے كے بدلے فروخت نہ كرو، مگر برابر برابر، اور اس كو ايك دوسرے سے زيادہ ميں فروخت نہ كرو، اور چاندى چاندى كے ساتھ بھى فروخت نہ كرو، مگر برابر برابر، اور ايك دوسرى سے زيادہ نہ كرو، اور ان ميں كوئى بھى غائب كو حاضر كے ساتھ فروخت نہ كرو " انتہى.
الورق چاندى كو كہتے ہيں، اور و لا تشفو يعنى ايك كو دوسرے سے زيادہ نہ كرو.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 13 / 487 ).
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:
سونے كى كچھ دوكانوں والے سونے كے تاجر كے پاس جا كر اسے خالص ايك كلو سونا دے كر اس سے ايك كلو سونے كے زيورات ليتے ہيں جن ميں قيمتى پتھر الماس يا زركون وغيرہ جڑے ہوتے ہيں، اور تاجر كو اس كى تيارى كى قيمت بھى ادا كرتے ہيں كيا يہ صحيح ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:
" يہ عمل حرام ہے، كيونكہ يہ سود پر مشتمل ہے، اور جيسا كہ سائل نے بيان كيا ہے اس ميں دو طرح سے سود بنتا ہے....
پہلى وجہ:
سونا زيادہ ديا گيا ہے، وہ اس طرح كہ ان نگينوں وغيرہ كى جگہ بھى سونا ديا گيا ہے ...
اور دوسرى وجہ يہ ہے كہ:
تيار كرنے كى اجرت زيادہ دى گئى ہے؛ كيونكہ صحيح يہ ہے تيار كرنے كى اجرت زيادہ دينى جائز نہيں، اس ليے كہ اگرچہ تيار كرنا آدمى كا فعل ہے ليكن يہ سودى وصف ميں زيادہ ہے، يہ اس وصف كے زيادہ كے مشابہ ہے جسے اللہ نے پيدا كيا ہے، اور پھر نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منع فرمايا ہے كہ:
ايك صاع كھجور دے كر دو صاع ردى كھجور لى جائے، مسلمان شخص كو چاہيے كہ وہ سود سے بچ كر رہے، اور اس سے دور رہے كيونكہ يہ عظيم اور بڑے گناہوں ميں سے ہے " انتہى.
فقہ و فتاوى البيوع صفحہ نمبر ( 393 ) جمع و ترتيب: اشرف عبد المقصود
مشروع اور جائز لين دين كرنے كى صورت يہ ہے كہ: ايك كلو سونا دے كر ايك كلو سونا اسى وقت اور برابر ليا جائے، چاہے تيارى اور صناعت جيسى بھى ہو، بلكہ چاہے ايك خام مال ہو اور ہر قسم كى صناعت اور تيارى سے خالى ہو.
يا پھر خام اور ڈھلا ہوا سونا نقد روپوں كے ساتھ فروخت كيا جائے، اور پھر تيار كردہ زيور ميں سے جو چاہے خريد لے.
يا پھر خام سونا خريد كر سنار كو زيور تيار كرنے كے ليے دے اور اس كى اجرت نقدى كى صورت ميں ادا كرے.
اور اس آخرى حل كے متعلق شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اور اگر تاجر سنار ہو تو وہ يہ كہہ سكتا ہے كہ: يہ سونا لو اور ميرے ليے جو وہ چاہتا ہے اس طرح كا زيور تيار كر دو، اور ميں تيار ہونے كے بعد آپ كو اس كى اجرت دونگا، تو اس ميں كوئى حرج نہيں " انتہى.
ماخوذ از: فقہ و فتاوى البيوع صفحہ نمبر ( 401 ).
واللہ اعلم .