الحمد للہ.
اول:
علماء كرام كا اتفاق ہے كہ بغير كسى شرعى عذر جان بوجھ كر فرضى نماز توڑنا حرام ہے.
جن شرعى عذروں كى بنا پر نماز توڑنا جائز ہے وہ سنت نبويہ ميں بيان ہوئے ہيں، اور اس طرح كے دوسرے عذر كو اس پر قياس كيا جا سكتا ہے.
فرضى يا نفلى نماز كو توڑنے والے شرعى عذر يہ ہيں:
سانپ كو قتل كرنا، مال ضائع ہونے كے پيش نظر، كسى كو بچانے كى خاطر، يا ڈوبنے والے كو بچانے كے ليے، يا آگ بجھانے كے ليے، يا كسى غافل شخص كو نقصان دہ چيز سے متنبہ كرنے كے ليے.
يہ عذر سوال نمبر (65682 ) اور (3878 ) كے جواب ميں بيان ہو چكے ہيں.
دوم:
اگر بچہ رونے لگے اور ماں يا باپ كے ليے نماز باجماعت ميں اسے خاموش كرانا مشكل ہو تو اس خدشہ كے پيش نظر كہ ہو سكتا ہے اس كے رونے كا سبب اسے پہنچنے والا كوئى ضرر ہو، اور دوسروں كى نماز خراب ہونے كے خدشہ كے پيش نظر نماز توڑنا جائز ہے.
اگر تو تھوڑى بہت حركت كرنے سے بچہ خاموش ہو سكتا ہو ليكن ايسا كرنے ميں قبلہ كى جانب سے رخ نہ ہٹے اور خاموش كرانے كے بعد نماز ميں پلٹ آئے مثلا الٹے پاؤں پيچھے ہٹ كر بچہ اٹھائے ليكن نماز نہ توڑے، ليكن اگر نماز مكمل توڑے بغير بچہ خاموش نہ ہوتا ہو تو ان شاء اللہ ايسا كرنے ميں كوئى حرج نہيں.
مطالب اولى النھى ميں ہے كہ:
” اگر مقتديوں كو كوئى ايسى چيز درپيش ہو جو نماز سے نكلنے كى متقاضى ہو تو امام كے ليے نماز ميں تحفيف كرنى جائز ہے، مثلا كسى بچے كے رونے كى آواز سننا، كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
” ميں نماز ميں كھڑا ہوتا ہوں اور نماز لمبى كرنا چاہتا ہوں، تو بچے كے رونے كى آواز سن كر نماز ميں تخفيف كر ليتا ہو كہ كہيں بچے كى ماں پر ميں مشقت نہ كر دوں ”
اسے ابو داود نے روايت كيا ہے” انتھى
ديكھيں: مطالب اولى النھى ( 1 / 639 ).
مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے دريافت كيا گيا:
اگر نماز اپنى طرف كو جانور مثلا بچھو وغيرہ دوسرا موذى جانور آتا ديكھے تو كيا نمازى اپنى نماز توڑ سكتا ہے ؟
اور اسى طرح حرم ميں نماز ادا كرتے ہوئے بچے كے پيچھے جانے كى خاطر نماز توڑنا جائز ہے تا كہ بچہ گم نہ ہو جائے ؟
كميٹى كے علماء كا جواب تھا:
” اگر تو بچھو وغيرہ سے نماز توڑے بغير ہى خلاصى حاصل كرنا ممكن ہو تو نماز نہ توڑے، اور اگر ممكن نہ ہو تو نماز توڑ لے، اور اسى طرح اگر نماز توڑے بغير بچے كى حفاظت ہو سكے تو نماز نہ توڑے، وگرنہ توڑ لے” ا نتہى
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 8 / 36 – 37 ).
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر (26230 ) كے جواب كا مطالعہ ضرورى كريں.
واللہ اعلم .