جمعرات 9 شوال 1445 - 18 اپریل 2024
اردو

مساجد اور اس كے ملحقات حرام مال سے تعمير كرنے كا حكم

75410

تاریخ اشاعت : 22-05-2006

مشاہدات : 9116

سوال

كيا حرام كمائى كے مال سے مسجد يا محلہ كى مسجد كے محلقات ہال وغيرہ تعمير كرنے جائز ہيں، جو مختلف اغراض مثلا نماز تراويح اور نماز عيدين وغيرہ كے ليے استعمال كيا جاسكے، مسجد كميٹى كو اس كمائى كا علم بھى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

حرام مال يا تو بعينہ حرام ہوتا ہے، يا پھر حرام كمائى كى وجہ سے حرام.

بعينہ حرام يعنى وہ مال جو فى نفسہ حرام ہو مثلا غصب يا چورى كردہ مال كے متعلق اگر علم ہو كہ يہ فلاں سے چورى كيا گيا ہے تو اس سے فائدہ حاصل كرنا جائز نہيں، بلكہ اسے مالك كو واپس كرنا واجب ہے.

اس غصب كردہ مال سے توبہ كا طريقہ يہ ہے كہ: صاحب مال كو اس كا مال واپس كيا جائے، اور غاصب شخص اگر يہ مال مالك كو واپس كرنے پر قادر ہو تو اس كے ليے غصب كردہ مال مسجد كى تعمير ميں صرف كرنا جائز نہيں ہے.

ليكن اگر وہ مال مالك كو واپس كرنا مشكل ہو ( مثلا وہ مال جو بعض حكومتيں لوگوں پر ظلم كر كے مال غصب كرتى ہيں ) تو يہ مال مسلمانوں كے مصلحت عامہ ميں صرف كرنے ميں كوئى حرج نہيں، اور اس ميں مسجد كى تعمير بھى شامل ہے.

شيخ الاسلام ابن تيميۃ رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:

" اگر مال ناحق حاصل كيا گيا ہو اور اسے مالك تك واپس پہنچانا مشكل ہو مثلا بہت سے سلطانى اموال ( وہ اموال جو بادشاہ نے غصب كيے ہيں )؛ ان اموال كو مسلمانوں كے فوائد كے ليے صرف كرنے ميں معاونت كرنا مثلا سرحدوں كى حفاظت، اور فوجيوں كے اخراجات وغيرہ يہ نيكى اور تقوى كے كاموں ميں معاونت ہے؛ جبكہ ان اموال ميں بادشاہ اور حكمران پر واجب تو يہ ہے كہ ـ اگر مال كے مالكوں كا علم نہ ہو اور ان تك اور ان كے ورثاء تك يہ اموال واپس كرنا مشكل ہو ـ وہ اسے مسلمانوں كى مصلحت ميں صرف كر دے ـ اگر وہ ظالم ہے تو توبہ بھى كرے ـ جمہور علماء كرام مثلا امام مالك اور ابو حنيفہ كا قول يہى ہے، اور كئى ايك صحابہ كرام سے بھى منقول ہے، اور شرعى دلائل بھى اس پر دلالت كرتے ہيں...

اور اگر اس كے علاوہ كسى اور نے يہ اموال چھينے ہوں تو اسے بھى ان اموال ميں يہى كام كرنا چاہيے " انتہى

ديكھيں: السياسۃ الشرعيۃ صفحہ نمبر ( 35 ).

ليكن وہ مال جو حرام كمائى سے كمايا گيا ہو وہ ہے جو كسى شخص نے حرام طريقہ سے كمايا ہو مثلا شراب كى تجارت سے، يا پھر سودى كاروبار، يا موسيقى اور گانے بجانے اور زنا وغيرہ كى اجرت حاصل كر كے، تو يہ مال صرف كمانے والے كے ليے حرام ہو گا.

ليكن اگر كوئى دوسرا شخص مباح اور جائز طريقہ سے حاصل كرتا ہے تو اس ميں كوئى حرج نہيں، مثلا صاحب مال اسے مسجد كى تعمير كے ليے چندہ اور فنڈ ميں دے دے، يا اپنے ملازم كو اس مال سے اجرت اور مزدورى دے، يا اس مال سے اپنى بيوى بچوں كا خرچ كرے، تو ان لوگوں كے ليے اس سے فائدہ حاصل كرنا جائز ہے، يہ مال ان كے ليے حرام نہيں ہو گا، بلكہ حرام تو اس كے ليے ہے جس نے اسے حرام طريقہ سے كمايا ہے.

اس حرام مال سے توبہ كا طريقہ يہ ہے كہ اس مال سے چھٹكارا حاصل كيا جائے، اور اسے نيكى اور بھلائى كے كاموں ميں صرف كر ديا جائے، اور اس ميں مسجد بھى شامل ہوتى ہے.

امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:

" غزالى كہتے ہيں: اگر اس كے پاس حرام مال ہو اور وہ اس سے توبہ كرنا اور برى ہونا چاہے ـ اگر اس مال كا مالك معين ہو ـ تو وہ مال اس تك يا اس كے وكيل كو پہنچانا واجب ہے، اور اگر فوت ہو چكا ہو تو اس كے ورثاء كے سپرد كيا جائے.

اور اگر اس كے مالك كا علم نہ ہو، اور اس كى معرفت اور پہچان سے نا اميد ہو چكا ہو تو وہ مال مسلمانوں كے عمومى فائدہ اور مصلحت ميں خرچ كرنا چاہيے، مثلا پل، سرائے اور مسافر خانے، اور مساجد وغيرہ جس ميں سب مسلمان شريك ہوتے ہيں، وگرنہ يہ مال فقراء و مساكين پر خرچ كر ديا جائے... غزالى نے جو يہ بيان كيا ہے اسے اصحاب ميں سے دوسروں نے بھى ذكر كيا ہے، وہ اسى طرح ہے جيسے انہوں نے كہا ہے.

كيونكہ اس مال كو ضائع اور تلف كرنا اور سمندر ميں پھينكنا جائز نہيں اس ليے مسلمانوں كے عمومى فائدہ اور مصلحت ميں خرچ كرنا ہى باقى رہا ، اللہ سبحانہ و تعالى ہى زيادہ علم ركھتا ہے " انتہى

ديكھيں: المجموع للنووى ( 9 / 330 ).

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:

حرام مال سے تعمير كردہ مسجد ميں نماز ادا كرنے كا حكم كيا ہے ؟

شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:

" اس ميں نماز ادا كرنا جائز ہے اور اس ميں كوئى حرج نہيں؛ كيونكہ جس نے اسے حرام مال سے تعمير كيا ہے ہو سكتا اس كى تعمير كرنے ميں اس كى نيت حرام مال سے چھٹكارا حاصل كرنا مقصود ہو، جب اس نے حرام مال سے چھٹكارا حاصل كرنے كے مقصد سے مسجد تعمير كروائى ہو تو اس كى تعمير حلالا ہے.

اگرچہ حرام مال سے چٹكارا حاصل كرنے كے ليے مساجد كى تعمير كا تعين نہيں، بلكہ اگر انسان اسے كسى خيراتى كام ميں لگا دے تو بھى مقصد حاصل ہو جاتا ہے " انتہى

ديكھيں: مجموع فتاوى ابن عثيمين ( 12 / سوال نمبر 304 ) اور الشرح الممتع ( 4 / 344 ).

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب