ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

لڑكى كے ساتھ جان پہچان ہوئى اور پھر اس كے لونڈى بننے كا اتفاق كر ليا!!

76324

تاریخ اشاعت : 04-06-2007

مشاہدات : 8856

سوال

تقريبا چھ ماہ قبل ميرى ايك سہيلى كے ذريعہ ايك مسافر شخص سے تعارف ہوا جو اپنى تعليم مكمل كرنے كے ليے اپنے ملك سے يہاں آيا ہوا ہے، اور ہمارے درميان تعارف كا وسيلہ انٹرنيٹ تھا، ہمارے درميان بہن بھائى كى طرح عام كى بات چيت ہوتى تھى، اور وہ مجھے دينى معاملات ميں نصيحت كرتا رہتا تھا، تقريبا ڈيڑھ ماہ قبل اس نے ميرے ساتھ تعلقات قائم كرنے كا مطالبہ كيا اور كہا وہ ميرے ساتھ صرف تعليم كرنے تك يعنى دو برس رہےگا، ليكن ايك روز ميں بہت حيران ہوئى كہ اس نے ايسا موضوع ميرے سامنے ركھا جسے ميں پہلے نہيں جانتى تھى وہ يہ كہ:
تا كہ ہمارى آپس ميں ايك دوسرے سے كلام ميں كوئى چيز مانع نہ ہو، اور ايك دوسرے سے مرتبط دو شخصوں كے درميان كلام ميں كچھ مانع نہ بن سكے وہ اس طرح كہ ميں اسے يہ كہوں كہ: ميں ايك آزاد مسلمان عورت جو كسى مرد كى ماتحت نہيں اسے اپنا آپ ہبہ كرتى ہو، اور وہ اسے قبول كر لےگا، مجھے اس نے بتايا كہ اس طرح وہ اس كى حليلہ " يعنى وہ اس سے تعلق زوجيت قائم كر سكے گا " بن جائيگى، اور ہمارى كلام كرنے ميں كوئى چيز مانع نہيں ہوگى، بلكہ ہم خاوند اور بيوى كى طرح بن جائينگے اور اسے اس نے ملك يمين " لونڈى " كا نام ديا.
اور وہ كہنے لگا كہ ميں نے اس موضوع كے ماہرين سے دريافت كيا ہے انہوں نے اس كى اجازت دى ہے، ليكن ميں اس موضوع كے متعلق شك و شبہ ميں ہوں، اور ميں نے بہت سارے افراد سے اس كے متعلق دريافت كرنے كى كوش كى ہے كہ آيا يہ صحيح ہے يا نہيں ؟
اور كيا ہمارے اس دور ميں ملك يمين، يعنى لونڈى كا وجود پايا جاتا ہے يا نہيں، ميں حقيقى پريشان ہوں آپ اس سلسلے ميں كچھ معلومات فراہم كريں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ تعالى آپ كو توفيق دے، يہ اپنے علم ميں ركھيں كہ ہمارے عظيم الشان دين نے ہميں دونوں جنسوں يعنى مرد و عورت كے مابين شادى كے بغير تعلقات قائم كرنے سے بہت شديد قسم كا اجتناب كرنے كا كہا ہے، بلكہ تعارفى پروگرام جو اس وقت بہت سے ميگزين، اور اخبارات اور انٹرنيٹ پر عام ہو چكا ہے كے سامنے اس تعارف كے دروازے كو اسلام نے بہت سختى كے ساتھ بند كيا ہے، اور يہ صرف فتنہ اور فساد كو دور اورختم كرن كے ليے ہے، اور عشق و محبت كے واقعات و حادثات كو روكنے كے ليے ايسا كيا ہے، كيونكہ يہ عشق و محبت ميں گرفتار لوگ اكثر طور پر فحاشى ميں گھر جاتے ہيں، اور پھر اللہ تعالى كى حرام كردہ اور اسكى حدود كى پامالى ہوتى ہے، اللہ تعالى اس سے محفوظ ركھے، يا پھر شك و شبھات كى بنا پر شادى ناكام ہوتى اور اعتبار كا فقدان ہو جاتا ہے.

اور ـ اللہ تعالى آپ كو توفيق نصيب كرے ـ آپ نے ابتدا سے غلطى كى جب آپ نے اس نوجوان سے تعلق اور تعارف قائم كيا، جس كے ساتھ آپ كى كوئى رشتہ دارى اور تعلق بھى نہ تھا.

اور آپ كا يہ كہنا كہ ( ميں نے اپنا آپ تجھے ہبہ كيا ...... ) يہ بہت بڑا غلط كام ہے:

اول:

اس ليے كہ كسى بھى مرد كے ليے حلال نہيں كہ وہ كسى عورت سے عورت كے ولى كى اجازت كے بغير شادى كرے، چاہے وہ عورت كنوارى ہو يا مطلقہ يا بيوہ، جمہور علماء جن ميں امام شافعى، امام مالك، اور امام احمد رحمہم اللہ شامل ہيں كا يہى قول ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" ولى كے بغير نكاح نہيں ہوتا "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1101 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1881 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ( 1 / 318 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اور عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس عورت نے بھى ولى كى اجازت كے بغير نكاح كيا، تو اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے، اس كا نكاح باطل ہے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1102 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1879 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1840 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

دوم:

اور اس ليے بھى كہ كسى بھى عورت كے ليے اپنا آپ كسى مرد كو ہبہ كرنا حلال نہيں ہے، اور نہ ہى وہ ايسا كرنے سے اس مرد كے ليے حلال ہو سكتى ہے، يہ تو صرف نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ خاص تھا، اور ان كے بعد ان كى امت ميں سے كسى شخص كے ليے بھى ايسا كرنا صحيح نہيں.

اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اور مؤمنہ عورت اگر اپنا آپ نبى كو ہبہ كر دے، اگر نبى اس سے نكاح كرنا چاہے، يہ خاص طور پر صرف آپ كے ليے ہے، مومنوں كے ليے نہيں الاحزاب ( 50 ).

اور اس كا يہ قول كہ: " يہ ملك يمين يعنى لونڈى ہے " يہ قول بھى غلط ہے، كيونكہ آزاد اور مسلمان عورت كسى كى مملوكہ لونڈى نہيں ہو سكتى، بلكہ ملك يمين يعنى لونڈى تو كافرملك سے مسلمانوں كى لڑائى اور جنگ ہو اور مسلمان اس پر قبضہ كر ليں تو پھر حاصل ہو سكتى ہے.

شيخ شنقيطى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور غلام كے مالك ہونے كا سبب كفر، اور اللہ تعالى اور اس كے رسول سے لڑائى اور جنگ ہے، تو جب اللہ تعالى نے مسلمان مجاہدين جو اللہ تعالى كا كلمہ بلند كرنے كے ليے لڑتے ہيں كو كفار كے مقابلہ ميں كفار پر غالب كر ديا تو انہيں ان كى ملكيت ميں دے ديا " انتہى مختصر

ديكھيں: اضواء البيان ( 3 / 387 ).

اور آخر ميں ہم آپ كو يہ كہتے ہيں كہ:

ہر وہ شادى جس كى بنياد شريعت اسلاميہ پر نہ ہو، اور غير شرعى اور غلط اشياء پر مبنى ہو وہ بہت جلد ناكام ہو جاتى ہے، اور پھر ندامت كے ساتھ انگلياں كاٹى جاتى ہيں، جيسا كہ جو نوجوان اس سارى مدت ميں ايك اجنبى لڑكى كے ساتھ نيٹ چيٹ اور ٹيلى فون كے ذريعہ تعلقات قائم ركھتا ہے، حقيقت ميں يہ نوجوان نہ تو دينى رمق ركھتا ہے، اور نہ ہى اس ميں كوئى شرم و حيا باقى ہے، اور نہ ہى كوئى ادب، اور نہ ہى اس سے مسلمانوں كى عزت و ناموس محفوظ رہ سكتى ہے.

اس ليے ہم آپ كو نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اللہ تعالى كے سامنے اپنے اس عمل پر توبہ كريں، اور اس نوجوان كے ساتھ تعلقات ختم كرديں، آپ كے ليے اسى ميں بہترى ہے، قبل اس كے كہ آپ اپنے كيے پر نادم ہوں، اور اس وقت ندامت بھى كوئى فائدہ نہ دے، اور آپ كے ليے بہت سے اس طرح كے قصوں اور حادثات ميں عبرت موجود ہے جن كى ابتداء ٹيلى فون كے ذريعہ بات چيت تھى، اور پھراس كا انجام شقاوت و بدبختى اور ندامت.

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 26067 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب