منگل 9 رمضان 1445 - 19 مارچ 2024
اردو

منہ ميں موجود كھانے كے ذرات كا دن كے وقت نگلنا

سوال

اگر كوئى شخص روزہ ركھ كر سوئے اور صبح اٹھے تو منہ ميں كھانے كے باقى مانندہ ذرات پائے اور اسے نگل لے تو اس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

بلا شك و شبہ كھانا روزہ توڑنے والى اشياء ميں شامل ہونا ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور تم كھاتے پيتے رہو حتى كہ فجر كى سفيد دھارى رات كى سياہ دھارى سے ظاہر ہو جائے البقرۃ ( 187 ).

مسلمانوں كو يہ معلوم ہے كہ كھانے پينے اور جماع اور باقى روزہ توڑنے والى اشياء سے ركنے كا نام ہى روزہ ہے.

ديكھيں: مجموع فتاوى شيخ الاسلام ( 25 / 219 ).

اور كوئى جامد چيز منہ كے راستے سے معدہ تك پہنچنے كو كھانا كہتے ہيں.

ديكھيں: حاشيۃ ابن قاسم على الروض المربع ( 3 / 389 ).

اس كھانے ميں يہ شرط نہيں كہ كھانا نفع مند ہو، يا زيادہ مقدار ہو، بلكہ اگر كوئى ايسى چيز بھى نگلى جائے جس كا كوئى فائدہ نہيں ( مثلا موتى منكا ) يا پھر كم مقدار ميں كوئى چيز نگلى جائے تو اس سے بھى روزہ ٹوٹ جائيگا.

اور دانتوں ميں بچے ہوئے كھانے كے ذرات نگلنا بھى كھانا اور روزے كو خراب كرنے كا باعث ہوگا.

يہ تو اس وقت ہے جس روزہ دار نے اسے اپنے اختيار كے ساتھ نگلا ہو، وہ اس طرح كہ اس كا دانتوں سے باہرنكالنا ممكن تھا ليكن پھر بھى وہ اسے عمدا اور جان بوجھ كر نگل گيا.

ليكن اگر وہ خود ہى اس كے حلق ميں چلا گيا اور اس نے اسے نگل ليا اور باہر نكالنا ممكن نہ رہا تو اس پر كوئى حرج نہيں، اور اس كا روزہ صحيح ہے.

كيونكہ روزہ توڑنے والى سب اشياء ميں يہ شرط ہے كہ روزہ دار اسے بااختيار كرے، اور اگر وہ مجبورا اور اپنے اختيار كے بغير كرتا ہے تو اس كا روزہ صحيح ہے، اور اس كے ذمہ كچھ لازم نہيں آتا.

سوال نمبر ( 22981 ) كے جواب ميں اس كى تفصيل بيان ہو چكى ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور صبح كے وقت جس كے دانتوں ميں كھانے كے باقى مانندہ ذرات ہوں تو وہ دو حالتوں سے خالى نہيں:

پہلى حالت:

وہ ذرات قليل مقدار ميں ہوں جن كا باہر پھينكنا ممكن نہ ہو تو وہ اسے نگل لے تو اس سے اس كا روزہ نہيں ٹوٹےگا؛ كيونكہ اس سے بچنا ممكن نہ تھا تو يہ تھوك كے مشابہ ہوا.

ابن منذر رحمہ اللہ كہتے ہيں: اہل علم كا اس پر اجماع ہے.

دوسرى حالت:

ذرات كى مقدار زيادہ ہو جن كا باہر پھينكنا ممكن ہو، چنانچہ اگر وہ انہيں باہر نكال لے تو اس پر كچھ لازم نہيں آتا، اور اور اگر انہيں عمدا اور جان بوجھ كر نگل جائے تو اكثر علماء كے قول كےمطابق اس كا روزہ خراب ہو جائيگا، اس ليے كہ اس نے ايسا كھانا نگلا ہے جس كا باہر پھينكنا ممكن تھا، اور اسے روزے كا بھى علم تھا، تو اس طرح اس كا روزہ ٹوٹ گيا، جس طرح كہ اگر كوئى كھانا شروع كر دے " انتہى كچھ كمى بيشى كے ساتھ

ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 260 ).

جواب كا خلاصہ:

اگر اسے نكالنا ممكن ہو ليكن اس نے اسے باہر نہ پھينكا بلكہ نگل ليا تو اس كا روزہ ٹوٹ گيا، اور اگر اسے بغير اختيار كے نگل گيا تو اس كا روزہ صحيح ہے، اس پر كچھ لازم نہيں آتا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب