الحمد للہ.
فطرانہ فقراء اور مساكين كو ديا جاتا ہے، كيونكہ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كى حديث ميں وارد ہے :
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فطرانہ فرض كيا، يہ روزے دار كے بےہودہ اور غلط كام سے پاكى اور مسكينوں كے ليے كھانے كا باعث ہے "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 1609 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1827 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح الترغيب حديث نمبر ( 1085 ) ميں حسن قرار ديا ہے.
اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا طريقہ يہ بھى تھا كہ آپ اس فطرانہ كو مساكين كے ليے مخصوص كرتے تھے " انتہى
ديكھيں: زاد المعاد ( 2 / 21 ) .
جب يہ فيصل شدہ بات ہے تو آپ كو علم ہونا چاہيے كہ قريبى رشتہ دار جو فقير و تنگ دست بھى ہو وہ دوسرے سے زيادہ زكاۃ كا مستحق ہے.
ليكن كسى كے ليے يہ جائز نہيں كہ وہ ايسے شخص كو زكاۃ كا مال دے جس كا خرچ اس كے ذمہ ہو.
آپ پر واجب ہے كہ آپ جب ان كى وارث بن سكتے ہيں تو پھر آپ كے ليے جائز نہيں كہ انہيں زكاۃ ادا كريں، اور اگر ان كے وارث نہيں يعنى ان كى وراثت ميں آپ كا كوئى حق نہيں تو پھر انہيں زكاۃ دينے ميں كوئى حرج نہيں.
اور آپ كے ذمہ ان كے اخراجات اور خرچ اس صورت ميں واجب ہوگا جب آپ كے پاس اپنى اور اپنے اہل و عيال كى ضرورت سے زيادہ مال ہو، اگر آپ كے پاس اتنا مال نہيں تو آپ پر ان كا خرچ واجب نہيں ہے، كيونكہ آپ كے پاس استطاعت نہيں، اور اس حالت ميں آپ كے ليے انہيں زكاۃ ادا كرنا جائز ہے چاہے آپ اس كے وارث بھى ہوں.
مزيد آپ سوال نمبر ( 106540 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .