اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

مسافر کے لئے تراویح کی نماز

سوال

چونکہ ماہ رمضان کی ہر مسلمان کے ہاں ایک خاص اہمیت ہے، نیز ہر مسلمان اس مہینے میں عبادات کے لئے سرگرم بھی نظر آتا ہے تو میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو شخص مسافر کے حکم میں ہو اس کے لئے نماز تراویح کا کیا حکم ہے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

رمضان میں نماز تراویح قیام اللیل میں شامل ہے، اللہ تعالی نے قیام اللیل کا اہتمام کرنے والوں کی تعریف میں فرمایا:
  كَانُوا قَلِيلًا مِّنَ اللَّيْلِ مَا يَهْجَعُونَ  
 ترجمہ: وہ راتوں کو کم ہی بستروں پر سوتے ہیں۔[الذاريات:17]

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان اور غیر رمضان میں قیام اللیل ترک نہیں کیا، سفر ہو یا قیام آپ نے تہجد کی نماز کا اہتمام فرمایا۔

جیسے کہ ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر یا قیام کسی بھی حالت میں قیام اللیل نہیں چھوڑتے تھے، چنانچہ اگر رات کو نیند کا غلبہ ہو جاتا یا طبیعت نا ساز ہوتی تو دن میں بارہ رکعات ادا کرتے تھے" ختم شد
"زاد المعاد" (1/311)

صحیح بخاری : (945) میں ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سفر کے دوران رات کی نماز اپنی سواری پر اشارے سے پڑھتے تھے، چاہے اس کا منہ جدھر کو بھی ہو جاتا۔ اسی طرح نماز وتر بھی اپنی سواری پر پڑھ لیتے لیکن فرض نماز اس پر نہ پڑھتے تھے۔

اسی طرح صحیح بخاری : (1034)کی روایت ہے کہ: " سالم بن عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما دوران سفر اپنی سواری پر رات کی نماز پڑھتے، سواری کا جس طرف بھی منہ ہو جاتا اس کی کوئی پرواہ نہ کرتے، ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی سواری پر نفل پڑھ لیتے تھے چاہے سواری کا منہ جدھر بھی ہو جاتا تھا، اسی طرح نماز وتر بھی سواری پر پڑھ لیتے تھے، البتہ فرض نماز سواری پر نہیں پڑھتے تھے۔ "

مسافر جن نفل نمازوں کو ترک کرے گا وہ ظہر کی پہلے اور بعد والی سنت مؤکدہ، مغرب اور عشا کی سنت مؤکدہ ہیں، اس کے علاوہ جتنی بھی سنتیں یا نوافل ہیں وہ مسافر اور مقیم دونوں کے لئے پڑھنا جائز ہے۔

اسی طرح صحیح مسلم: (1112) حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب کہتے ہیں: میں مکہ کی جانب سفر میں ابن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا، انہوں نے ہمیں ظہر کی نماز دو رکعتیں پڑھائی، پھر وہ اور ہم چل دئیے اور وہ اپنے پالان کے پاس آئے اور بیٹھ گئے ،ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے۔ پھر اچانک ان کی توجہ اس طرف ہوئی جہاں انہوں نے نماز پڑھی تھی، انہوں نے لوگوں کو قیام کی حالت میں دیکھا تو پوچھا: یہ لوگ کیا کر رہے ہیں؟ میں نے کہا: سنتیں پڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا: اگر میں نے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز پوری پڑھتا، بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ رہا آپ نے دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے آپ کو اپنے پاس بلا لیا اور میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ رہا انہوں نے بھی دو رکعت سے زائد نماز نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں بھی بلا لیا، اور میں عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ بھی رہا، انہوں نے بھی دو رکعت نماز سے زائد نہ پڑھی یہاں تک کہ اللہ تعالی نے انہیں بھی بلا لیا۔ پھر میں عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا انہوں نے بھی دو سے زائد رکعتیں نہیں پڑھیں، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں بھی بلا لیا اور اللہ تعالی کا فرمان ہے:   لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ  ترجمہ: بے شک تمہارے لئے رسول اللہ [صلی اللہ علیہ و سلم] بہترین نمونہ ہے۔"

ابن عمر رضی اللہ عنہما کا یہ کہنا کہ: " اگر میں نے سنتیں پڑھنی ہوتیں تو میں نماز پوری پڑھتا " کا مطلب یہ ہے کہ اگر نفل نماز میں نے پڑھنی ہوتی تو نماز کی فرض رکعات کو میں پورا کرتا ، یہ میرے نزدیک زیادہ محبوب تھا، لیکن میں ان دونوں کاموں میں سے کوئی بھی عمل نہیں کرتا، میرے نزدیک نماز قصر کرنا اور سنت مؤکدہ ترک کرنا سنت ہے۔

دائمی فتوی کمیٹی کے علمائے کرام سے پوچھا گیا:
"آپ کی مسافروں کے بارے میں کیا رائے ہے کہ وہ رمضان میں تراویح پڑھیں یا نہ پڑھیں؟ حالانکہ وہ نماز تو قصر پڑھتے ہیں؟"
اس پر انہوں نے جواب دیا:
"ماہ رمضان میں قیام سنت ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا رمضان میں طریقہ کار تھا، اسی پر صحابہ کرام بھی عمل پیرا تھے اور آج تک اس پر عمل جاری و ساری ہے، صحیح بخاری اور مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے چند راتیں تراویح ادا کی تو صحابہ کرام نے بھی آپ کے ساتھ تراویح ادا کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم رک گئے اور بقیہ مہینہ اپنے گھر میں ہی ادا کی اور فرمایا: (مجھے خدشہ ہے کہ کہیں آپ پر یہ نماز فرض نہ کر دی جائے اور پھر تم اس کی ادائیگی سے عاجز آ جاؤ)

اور بخاری میں ہی ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو ابی بن کعب کی امامت میں اکٹھا کر دیا، تو انہوں نے سب کو تراویح پڑھائی۔

صحیح بخاری اور مسلم میں یہ بھی ہے کہ ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نماز کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے بتلایا : (آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان اور غیر رمضان میں 11 رکعات سے زیادہ ادا نہیں کرتے تھے)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں سفر فرماتے رمضان کے سفروں میں ہی فتح مکہ کا سفر بھی شامل ہے؛ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم 8 سن ہجری میں 20 رمضان کو روانہ ہوئے تھے، جیسے کہ ابن قیم کہتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سفر یا قیام کسی بھی حالت میں قیام اللیل نہیں چھوڑتے تھے، چنانچہ اگر رات کو نیند کا غلبہ ہو جاتا یا طبیعت ناساز ہوتی تو دن میں بارہ رکعات ادا کرتے تھے" تو اس سے معلوم ہوا کہ اگر سفر میں تراویح ادا کی ہے تو انہوں نے سنت کے مطابق عمل کیا ہے۔" ختم شد
"فتاوى اللجنة الدائمة" (7/206)

خلاصہ:

نماز تراویح مسافر کے لئے بھی اس طرح مستحب ہے جیسے مقیم کے لئے ہے؛ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سفر اور قیام ہر حالت میں تراویح کی پابندی کرتے تھے۔

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہمیں اپنی اطاعت اور رضا کے کام کرنے کی توفیق سے نوازے۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب