منگل 18 جمادی اولی 1446 - 19 نومبر 2024
اردو

دوران ڈيوٹى ملازم كا تلاوت قرآن كرنا

79636

تاریخ اشاعت : 01-06-2007

مشاہدات : 5190

سوال

دوران ڈيوٹى قرآن مجيد كى تلاوت كرنے كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

جيسا كہ سوال ميں آيا ہے ـ اگر تو كام اور ڈيوٹى كے حساب ميں ہو تو پھر جائز نہيں، كيونكہ ملازم نے ان كے ساتھ عقد اور معاہدہ كيا ہے كہ وہ اس كے ذمہ لگايا گيا كام كريگا، اور يوميہ ڈيوٹى كا دورانيہ بھى پورا كريگا.

اس ليے اگر وہ ڈيوٹى ميں خلل پيدا كرتا ہے، يا پھر كام ميں كوئى خليل پيدا كرتا ہے تو يہ حرام ہے.

كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:

اے ايمان والو! معاہدہ جات پورے كيا كرو المآئدۃ ( 1 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

ليكن اگر آپ كا تلاوت قرآن كرنا نہ تو آپ كے كام پر اثرانداز ہوتا ہے اور نہ ہى ڈيوٹى پر تو پھر ان شاء اللہ اس ميں كوئى حرج نہيں.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ سے درج ذيل سوال كيا گيا:

اگر دوران ڈيوٹى ملازم اپنے ذمہ كام كر كے ڈيوٹى كے وقت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرآن مجيد كى تلاوت كرنا چاہے، يا كوئى مفيد چيز پڑھنا چاہے، يا كچھ آرام كرنے كے ليے كچھ سستا لے تو كيا اس كے ذمہ كوئى گناہ تو نہيں ؟

شيخ رحمہ اللہ كا جواب تھا:

" جب اس نے اپنے ذمہ لگايا گيا كام مكمل كر ليا تو پھر اس پر كوئى حرج اور گناہ نہيں، ليكن اگر وہ اپنى ڈيوٹى اور كام كى ادائيگى ميں كوتاہى كرتا ہے تو پھر حرام ہے، اور جائز نہيں، ليكن اونگھنے اور سستانے كى كوئى رخصت نہيں، كيونكہ وہ اپنے آپ پر كنٹرول نہيں كرسكے گا ہو سكتا ہے وہ سو ہى جائے اور اسے شعور بھى نہ رہے " انتہى.

ماخوذ از: فتاوى الحقوق جمع كردہ: خالد الجريسى صفحہ ( 59 ).

مزيد معلومات كے حصول كے ليے آپ سوال نمبر ( 9374 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب