الحمد للہ.
حج يا عمرہ صرف ايك ہى شخص كى جانب سے ہو سكتا ہے، ايك ہى وقت ميں آپ والد اور والدہ كى طرف سے عمرہ نہيں كر سكتے، اور اس ميں بھى بہتر اور افضل يہ ہے كہ آپ پہلے والدہ كى جانب سے عمرہ كريں؛ كيونكہ والدہ كا حسن سلوك ميں زيادہ حق ہے، ليكن اگر والدہ كى طرف سے نفلى عمرہ ہو اور والد كى جانب سے واجب وہ اس طرح كہ والد نے اپنى زندگى ميں عمرہ نہ كيا ہو تو پھر آپ والد كى طرف سے پہلے عمرہ كريں.
كشاف القناع ميں ہے:
" اگر والدين متوفى ہوں يا پھر جسمانى طور پر عاجز تو ان كى جانب سے حج كرنا مستحب ہے.
اور بعض نے يہ زيادہ كيا ہے كہ: اگر انہوں نے حج نہ كيا ہو, اور امام احمد رحمہ اللہ بيان كرتے ہيں كہ والدہ كو مقدم كيا جائيگا، كيونكہ وہ حسن سلوك كى زيادہ حقدار ہے، اور والد كى طرف سے فرضى حج كو والدہ كى طرف سے نفلى حج پر مقدم كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: كشاف القناع ( 2 / 377 ).
اور جو شخص حج يا عمرہ كا احرام دو اشخاص كى طرف سے باندھے تو اس كا وہ حج يا عمرہ اس كى اپنى جانب سے ادا ہوگا.
امام شافعى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
اور اگر دو آدميوں نے ايك شخص كو اپنے اپنے والد كى طرف سے حج كرنے كے ليے اجرت پر ليا اور اس شخص نے ان دونوں كى طرف سے احرام باندھ كر تلبيہ كہا تو اس كى اجرت باطل ہو جائيگى، اور اس كا حج اپنى جانب سے ہوگا، نہ كہ ان دونوں كى جانب سے.
اور اگر اس نے اپنى اور ان دونوں كى طرف سے، يا پھر ان ميں سے ايك كى جانب سے تو حج اس كى اپنى طرف سے ہوگا اور اس كى اجرت باطل ہو جائيگى " انتہى
ديكھيں: الام للشافعى ( 2 / 137 ).
اور ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اور اگر اس نے ايك ہى نسك ميں دو اشخاص كى جانب سے نيابت كرتے ہوئے دونوں كى جانب سے احرام باندھا تو ان كى طرف سے نہيں بلكہ اس كى اپنى طرف سے ادائيگى ہوگى؛ كيونكہ ان دونوں كى طرف سے ہونا ممكن ہى نہيں، اور نہ ہى ان ميں سے كسى ايك كى طرف ہے.
اور اگر اس نے اپنى اور كسى دوسرے كى جانب سے احرام باندھا تو اس كى اپنى جانب سے ادا ہوگا؛ كيونكہ جب اس كى اپنى جانب سے ادا ہو اور اس نے نيت بھى نہ كى، تو اس نيت سے ہونا زيادہ اولى ہے " انتہى.
ديكھيں: المغنى ابن قدامہ ( 3 / 97 ).
اور امام نووى رحمہ اللہ تعالى " المجموع " ميں كہتے ہيں:
ہمارے اصحاب كا كہنا ہے:
اگر دو آدميوں نے ايك شخص كو اپنى جانب سے حج كرنے كے ليے اجرت پر ليا اور اس شخص نے دونوں كى جانب سے احرام باندھ ليا تو اس كا احرام اپنى جانب سے نفلى ہوگا، اور ان ميں سے كسى ايك كى طرف سے بھى احرام نہيں ہوگا؛ كيونكہ دو اشخاص كى جانب سے احرام نہيں ہوتا، اور ان ميں ايك شخص دوسرے سے اولى اور بہتر نہيں.
اور اگر وہ ان ميں سے كسى ايك اور اپنى جانب سے احرام باندھے تو احرام اس كى اپنى جانب سے ہوگا؛ كيونكہ دو اشخاص كى جانب سے احرام باندھنا جائز نہيں، اور وہ خود كسى دوسرے شخص سے زيادہ اولى ہے لہذا اس كى اپنى جانب سے ادا ہوگا.
امام شافعى رحمہ اللہ نے كتاب الام ميں ايسے ہى بيان كيا ہے، اور الشيخ ابو حامد اور قاضى اور ابو طيب اور اصحاب نے ان كى متابعت كى ہے " انتہى
ديكھيں: المجموع للنووى ( 7 / 126 ).
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہمارے اور آپ كے نيك و صالح اعمال كو شرف قبوليت سے نوازے.
واللہ اعلم .