ہفتہ 20 جمادی ثانیہ 1446 - 21 دسمبر 2024
اردو

لڑکی نے ولی کے بغیر شادی کرلی

7989

تاریخ اشاعت : 14-12-2004

مشاہدات : 41683

سوال

میں اجنبی ملک میں رہائش پزیرہوں اورکسی اورملک کی ایک نصرانی لڑکی سے شادی کی ہے ، ہم دونوں کا اس ملک میں کوئي بھی قریبی رہائش پزیر نہیں ، میں نے اسے شادی کا پیغام دیا تووہ شادی پر رضامند ہوگئی بعد میں ہمارا ایجاب وقبول بھی ہوا لیکن میں مہر دینا بھول گيا اور بعد میں اسے کچھ رقم دی ، اس لڑکی کا کوئي وصی نہیں وہ بالغ اوربا اختیار ہے ، اوراس شادی کے کوئي گواہ بھی نہیں ۔
توکیا یہ شادی صحیح ہے ، ہم نے معاشرے کے رسم و رواج سے ہٹ کر صرف اللہ تعالی کی رضا کے لیے شادی کی تھی ، اس خدشہ سے کہ کہیں ہماری یہ شادی غلط نہ ہوایک دوسرے کو طلاق دے دی ، توکیا ایسا کرنا صحیح تھا، اورکیا اب گواہوں اوراس کے کسی ولی کی موجودگي میں عقد نکاح کرنا واجب ہوگا ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول :

جمہور علماء کرام جن میں امام شافعی ، امام احمد ، امام مالک رحمہ اللہ تعالی کامسلک ہے کہ کسی بھی مرد کے لیےحلال نہیں کہ وہ عورت سے اس کے ولی کے بغیر شادی کرے چاہے وہ عورت کنواری ہو یا شادی شدہ ۔

ان کے دلائل میں مندرجہ ذيل آیات شامل ہیں :

اللہ سبحانہ وتعالی کافرمان ہے :

اورتم انہیں اپنے خاوندوں سے شادی کرنے سے نہ روکو

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا :

اورمشرکوں سے اس وقت تک شادی نہ کرو جب تک وہ ایمان نہيں لے آتے ۔

اورایک مقام پر یہ فرمایا :

اوراپنے میں سے بے نکاح مرد و عورت کا نکاح کردو ۔

ان آیات میں نکاح میں ولی کی شرط بیان ہوئي ہے اوراس کی وجہ دلالت یہ ہے کہ اللہ تعالی نے ان سب آیات میں عورت کے ولی کو عقدنکاح کے بارہ میں مخاطب کیا ہے اوراگر معاملہ ولی کا نہیں بلکہ صرف عورت کے لیے ہوتا تو پھر اس کے ولی کو مخاطب کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی ۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالی کی فقہ ہے کہ انہوں نے اپنی صحیح بخاری میں ان آیات پر یہ کہتے ہوئے باب باندھا ہے ( باب من قال ) " لانکاح الا بولی " بغیر ولی کے نکاح نہیں ہونے کے قول کے بارہ میں باب ۔

اورحدیث میں بھی یہ وارد ہے کہ : ابوموسی رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا ) سنن ترمذي حدیث نمبر ( 1101 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2085 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر( 1881 ) ۔

علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے صحیح سنن ترمذی ( 1 / 318 ) میں اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ۔

اورام المومنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہيں کہ رسول مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( جوعورت بھی اپنے ولی کے بغیر نکاح کرے اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اس کا نکاح باطل ہے ، اوراگر ( خاوندنے ) اس سے دخول کرلیا تو اس سے نفع حاصل اوراستمتاع کرنے کی وجہ سے اسے مہر دینا ہوگا ، اوراگر وہ آپس میں جھگڑا کریں اور جس کاولی نہیں حکمران اس کا ولی ہوگا ) سنن ترمذی حدیث نمبر ( 1102 ) سنن ابوداود حدیث نمبر ( 2083 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 1879 ) علامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے ارواء الغلیل ( 1840 ) میں اسے صحیح قرار دیاہے ۔

حدیث میں اشتجروا کا معنی تنازعوا یعنی تنازع ہے ۔

دوم :

اگر عورت کا ولی اسے اپنی پسند کی شادی بغیر کسی عذر کے نہیں کرنے دیتا تواس کی ولایت ختم ہوکر اس کے نزدیکی کے منتقل ہوجائے گی مثلا باب کی بجائے دادا ولی بن جائے گا ۔

سوم :

اوراگر اس کے سب اولیاء نے اسے بغیر کسی عذر شرعی کے شادی کرنے سے روکا تو سابقہ حدیث کی وجہ سے حکمران ولی بنے گا کیونکہ حدیث میں ہے ( ۔۔۔ اگر وہ جھگڑا کریں تو جس کا ولی نہ ہو حکمران اس کا ولی ہے ) ۔

چہارم :

اگر نہ توولی ہواور نہ ہی حکمران تو پھر وہ شخص اس کی شادی کرے گا جسے سلطہ اور اختیار حاصل ہو مثلا گاؤں کا نمبردار ، یا گورنر ، وغیرہ ،اوراگر یہ بھی نہ ہوں تووہ عورت اپنی شادی کے لیے کسی مسلمان امین شخص کو اپنی شادی کے لیے وکیل بنائے ۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگر نکاح کا ولی نہ ہو تواس حالت میں ولایت اس شخص کی طرف منتقل ہوگی جسے نکاح کے علاوہ دوسرے معاملات میں ولایت حاصل ہو مثلا گا‎ؤں کا نمبردار ، یا قافلے کا امیر وغیرہ ۔ دیکھیں الاختیارات ص ( 350 ) ۔

اورابن قدامہ مقدسی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :

اگرعورت کا ولی نہ ہو اورنہ ہی حکمران ملے تو امام احمد کا قول ہے کہ اس عورت کی اجازت سے کوئي عادل شخص اس کی شادی کردے ۔ دیکھیں المغنی ( 9 / 362 ) ۔

اورشیخ عمر الاشقر کہتے ہیں :

جب مسلمانوں کی طاقت ختم ہوجائے اورانہیں سلطہ حاصل نہ ہو یا پھر عورت کسی ایسی جگہ رہتی ہو جہاں پر مسلمان اقلیت میں ہوں اورانہیں کوئي اختیار نہ ہو ان کا حکمران نہ ہو اورعورت کا ولی بھی نہ ہو جس طرح کے امریکہ وغیرہ میں مسلمان بستے ہیں ۔

اگر ان ممالک میں اسلامی تنظیمیں ہوں جو مسلمانوں کے حالات کا خیال رکھتی ہوں تویہی تنظیم بھی اس عورت کا شادی کرے گی ، اوراسی طرح اگر مسلمانوں کا کوئي ایسا امیر ہوجس کی بات تسلیم کی جاتی ہواور وہ اس کی اطاعت ہوتی ہو یا کوئي مسئول جو اس کے حالات کی دیکھ بھال کرتا ہو وہ عورت کا ولی بنے گا ۔ دیکھیں : الواضع فی شرح قانون الاحوال الشخصیۃ الاردنی ص ( 70 ) ۔

عقد نکاح میں واجب اورضروری ہے کہ دو عدد عاقل بالغ مسلمان اس عقدنکاح کی گواہی دیں ۔ آپ اس کی تفصیل دیکھنے کے لیے سوال نمبر ( 2127 ) کے جواب کا مطالعہ کریں ۔

اس لیے آپ کی پہلی شادی باطل تھی اب آپ کو دوبارہ نکاح کرنا چاہیے اوراس میں عورت کے ولی اور دوگواہوں کا ہونا ضروری ہے جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے ۔

واللہ اعلم  .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب