الحمد للہ.
اس میں کوئي شک وشبہ نہيں کہ اولاد میں سے کچھ بچے بہتراوراچھے ہوتے ہیں ، اوراس کاعلم بھی ہرایک کو ہے ، لیکن اس کی وجہ سے والد کے لیے یہ جائز نہيں کہ وہ کسی کو دوسرے سے ترجیح دے بلکہ اسے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل کرتے ہوئے عدل وانصاف کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
( اللہ تعالی سے ڈرو اوراپنی اولاد کےمابین عدل وانصاف کیا کرو ) ۔
لھذا والد کے لیے جائزنہیں کہ وہ کسی ایک بچے کودوسرے سے امتیازی حیثیت دیتا ہوا اس کےساتھ دوسرے سے بہتر سلوک کرے ، بلکہ واجب یہ ہے کہ وہ اولاد میں سب کے ساتھ عدل وانصاف سے کام لے بلکہ اسے سب کو نصیحت کرنی چاہیے تا کہ وہ نیکی اورحسن سلوک اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرمانبرداری کریں ۔
لیکن اسے عطیہ اورتحفہ دینے میں کسی بھی بچے کے مابین فضیلت سے کام نہیں لینا چاہیے ، اورنہ ہی وہ بعض کے لیے وصیت کرے اوربعض کوکچھ بھی نہ دے ، بلکہ وہ سب وراثت میں برابر کے شریک ہیں اورانہيں عطیہ ومیراث میں سے وہی حصے ملیں گے جوشریعت اسلامیہ نے ان کے لیے مقرر کردیے ہیں ، اسے ان کے مابین عدل سے کام لینا ہوگا جیسا کہ شریعت اسلامیہ میں موجود ہے لھذا مرد کوعورت سے ڈبل ملے گا ۔
اگر وہ بیٹوں کوایک ہزار دے توبیٹی کوپانچ سو ملے گا ، اوراگروہ عقلمند اورہوشیار اوربالغ ہوتے ہوئے ایک دوسرے کومعاف کردیں اوراجازت دیں اور کہیں کہ ہمارے بھائي کواتنا دے دو اوراس کی اجازت واضح طور پر دیں توکوئي حرج نہيں ، لھذا اگر وہ کہتے ہیں کہ ہماری طرف سے اجازت ہے کہ آپ اسے گاڑی یا فلاں چيز دے دیں ۔۔۔ اوریہ اجازت واضح ہوجس میں کسی بھی قسم کا چھپاؤ نہ ہواورنہ ہی خوف وخدشہ توپھر ایسا کرنے میں کوئي حرج نہیں ۔
مقصدیہ ہے کہ عدل وانصاف کی کوشش کرنی چاہیے ، لیکن جب اولاد عاقل وبالغ ہو چاہے وہ بیٹے ہوں یا بیٹیاں اوروہ کسی کوکسی خاص سبب کی بنا پر کوئي چيز دینے کی اجازت دے دیں تواس میں کوئي حرج نہيں یہ ان کا حق ہے ۔ .