سوموار 3 جمادی اولی 1446 - 4 نومبر 2024
اردو

لڑكى كے والدين كا اسلامى طريقہ سے خوشى كرنے سے انكار كرنا

82500

تاریخ اشاعت : 25-01-2022

مشاہدات : 7995

سوال

اگر والدين اسلامى طريقہ سے شادى كى تقريب منانے سے انكار كريں تو كيا مجھے ان كى مخالفت كرنے كا حق حاصل ہے يا كہ مجھے ان كے كہنے پر راضى ہو كر اپنا موقف ختم كر دينا چاہيے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اسلامى تقريب اور خوشى سے مراد يہ ہے كہ ايسى تقريب منعقد كى جائے جو شرعى احكام كے ساتھ منضبط ہو، وہ اس طرح كہ اس ميں كسى بھى قسم كى شرعى مخالفت نہ ہو نہ تو مرد و عورت كا اختلاط اور نہ ہى مردوں كے سامنے بےپردگى اور نہ آلات موسيقى اور گانا بجانا استعمال كيے جائيں، جو بھى اللہ نے حرام كيا ہے اس سے اجتناب ہو ـ افسوس كے ساتھ كہنا پڑتا ہے كہ ـ يہ حرام كام اس وقت اكثر مسلمانوں ميں عام ہيں مگر جس پر اللہ رحم كرے وہ اس سے بچا ہوا ہے.

چنانچہ شادى ميں مشروع يہ ہے كہ  دولہا اور دلہن اور ان كے گھر والوں اور انہيں مباركباد دينے والوں ميں ايسى اشياء اور امور سے خوشى و فرحت ڈالى جائے جو اللہ كے غضب اور ناراضگى كا باعث نہ ہو مثلا عورتوں كے درميان دف بجائى جائے اور وہ آپس ميں اشعار اور نفع مند كلام پڑ سكتى ہيں جو گناہ سے خالى ہو.

امام بخارى رحمہ اللہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے روايت كيا ہے كہ:

ايك عورت كى ايك انصارى آدمى سے شادى ہوئى اور اس كى رخصتى ہوئى تو نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے عائشہ تمہارے پاس كھيل والى كيا چيز ہے ؟ كيونكہ انصار كو يہ پسند ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 5163 ).

اور ابو داود رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ:

" عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى ايك رشتہ دار كا نكاح ايك انصارى مرد سے ہوا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم آئے اور كہنے لگے:

" كيا تم نے لڑكى كو كوئى ہديہ ديا ہے ؟ انہوں نے عرض كيا جى ہاں.

آپ نے فرمايا: كيا تم نے اس كے ساتھ كسى گانے والى كو بھيجا ہے ؟ عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے عرض كيا: نہيں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: انصار ايك ايسى قوم ہے جن ميں غزل ہے، لہذا اگر تم اس كے ساتھ كسى ايسى لڑكى كو بھيج ديتے جو يہ كہتى:

ہم تمہارے پاس آئے، ہم تمہارے پاس آئے، چنانچہ تمہيں بھى اور ہميں بھى مبارك ہو "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1900 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے ارواء الغليل حديث نمبر ( 1995 ) ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اور نسائى اور ابن ماجہ نے محمد بن حاطب سے بيان كيا ہے وہ كہتے ہيں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" حلال نكاح اور حرام ميں فرق كرنے والى چيز دف اور آواز ہے "

سنن نسائى حديث نمبر ( 3369 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1896 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

اس ليے اسلام ميں شادى كى تقريبات ميں وہاں حاضر ہونے والے افراد ميں خوشى و سرور اور فرحت داخل كى جائے، اور عفت و پاكى حاصل ہو اور حرام كردہ اشياء سے دور رہا جائے.

چنانچہ عورتيں شادى كى تقريب ميں مردوں سے بالكل الگ تھلك رہ كر خوشى منائيں، اور جو بھى خوشى و سرور والا عمل ہے اسے كريں جو دلہن اور اس كے پاس عورتوں كو خوش كرے، ليكن حرام سے اجتناب كيا جائے، چاہے وہ كھيل كود ہو يا دف بجا كر گانا، اور كھانا پينا يا دوسرى اشياء جو عادات اور عرف كے مطابق ہوں ليكن اس ميں شرط يہى ہے كہ مباح كے دائرہ كے اندر رہتے ہوئے كيا جائے.

اور اسى طرح مرد بھى عورتوں سے الگ تھلگ جگہ جمع ہو كر آپس ميں مباركباد كا تبادلہ كريں، اور دولہا دلہن كے ليے بركت كى دعا كريں، اور دولہا كے ليے مسنون ہے كہ وہ وليمہ كى دعوت كرے جس ميں حاضر ہونے والے بغير كسى اسراف و فضول خرچى كے كھانا تناول كريں.

چنانچہ شادى كى تقريب كى غرض اور مقصد يہ ہوتا ہے كہ نكاح كا اعلان اور اظہار كيا جائے، اور حرام بدكارى سے نكاح كى تميز ہو سكے، اور دولہا اور دلہن اور ان كے خاندان والوں ميں خوشى و سرور داخل كيا جائے، اور اس سب ميں اللہ سبحانہ و تعالى كى عبوديت ہو.

دوم:

اگر والدين شادى كى تقريب ميں شرعى احكام كى پابندى كرنے سے انكار كر ديں اور برائى اور غلط كام كرنے پر اصرار كريں مثلا مرد و عورت ميں اختلاط، يا پھر رقاصہ اور اور فنكار اور گلوكار بلائے جائيں جو مردوں كے سامنے گانا گائيں، تو آپ انہيں نصيحت كريں، اور ان كے سامنے اس برائى كے بارہ ميں شرعى حكم واضح كريں، اور انہيں ياد دلائيں كہ شادى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب سے ايك نعمت ہے، جس كا شكر ادا كرنا چاہيے، اور كسى بھى نعمت كا شكر اس طرح ادا ہو سكتا ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كى جائے نہ كہ اس كى معصيت و نافرمانى.

اور جس شادى كى ابتدا ہى معصيت و نافرمانى كے ساتھ ہو وہ شادى كبھى كامياب نہيں ہو سكتى، اور اگر وہ اللہ كے حكم كى پابندى كرتے ہوئے اللہ كى اطاعت و فرمانبردارى كريں تو اور اگر اپنے موقف پر اصرار كريں اور ڈٹے رہيں تو آپ برائى اور غلط كام ميں شريك مت ہوں اور آپ اس كى ناپسنديدگى اور اس سے براءت كا اظہار كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اللہ تعالى تمہارے پاس اپنى كتاب ميں يہ حكم اتار چكا ہے كہ تم جب كسى مجلس والوں كو اللہ تعالى كى آيات كے ساتھ كفر كرتے ہوئے اور مذاق كرتے ہوئے سنو تو اس مجمع ميں ان كے ساتھ نہ بيٹھو! جب تك كہ وہ اس كے علاوہ اور باتيں نہ كرنے لگيں، ( ورنہ ) تم بھى اس وقت انہى جيسے ہو، يقينا اللہ تعالى تمام كافروں اور سب منافقوں كو جہنم ميں جمع كرنے والا ہے النساء ( 140 ).

امام قرطبى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ آيت اس بات كى دليل ہے كہ معصيت و نافرمانى كرنے والوں سے اگر برائى اور معصيت ظاہر ہو تو ان لوگوں سے عليحدہ رہنا اور اجتناب كرنا واجب ہے؛ كيونكہ جو ان سے اجتناب نہيں كريگا اور عليحدہ نہيں ہوتا وہ ان كے فعل پر راضى ہے.

اللہ عزوجل كا فرمان ہے:

ورنہ تم بھى انہى جيسے ہو.

چنانچہ جو كوئى بھى كسى معصيت و نافرمانى والى مجلس ميں بيٹھے اور اس برائى كو روكے نہيں تو وہ بھى ان كے ساتھ گناہ ميں برابر كا شريك ہے.

چاہيے تو يہ كہ جب وہ برائى كى بات كريں اور غلط كام كريں تو انہيں روكا جائے، اور اگر وہ انہيں روكنے كى طاقت نہيں ركھتا تو وہ ان كے پاس سے اٹھ كر چلا جائے تا كہ وہ اس آيت كے تحت ہو كر ان ميں شامل نہ ہو " انتہى مختصرا.

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سے جو كوئى بھى كسى برائى كو ديكھے تو وہ اسے اپنے ہاتھ سے روكے، اگر اس كى طاقت نہ ہو تو وہ اسے اپنى زبان سے منع كرے، اور اگر اس كى بھى استطاعت نہيں تو وہ اسے دل سے برا جانے اور يہ كمزور ترين ايمان ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 49 ).

مزيد فائدہ كے ليے آپ سوال نمبر ( 7577 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.

آپ كے ليے جائز نہيں كہ آپ كسى برائى پر راضى ہوں اور نہ ہى آپ كے ليے شادى وغيرہ ميں شرعى احكام كى پابندى كرنے كے موقف سے پيچھے ہٹنا جائز ہے، كيونكہ آپ كے ليے دنيا و آخرت ميں سعادت و كاميابى اسى ميں ہے كہ اپنے موقف پر قائم رہيں.

اللہ تعالى سے دعا ہے كہ آپ كو توفيق نصيب فرمائے اور آپ كى صحيح راہنمائى كرے.

واللہ اعلم.

ماخذ: الاسلام سوال و جواب