الحمد للہ.
اول:
شريعت اسلاميہ نے اولاد پيدا كرنے اور كثرت اولاد كى ترغيب دلائى ہے، حديث ميں وارد ہے كہ:
ايك شخص رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس آيا اور كہنے لگا:
مجھے ايك حسب و نسب اور خوبصورت عورت ملى ہے ليكن وہ بچے پيدا نہيں كر سكتى كيا ميں اس سے شادى كر لوں؟
تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے اس سے شادى كرنے سے منع كر ديا.
پھر وہ دوسرى بار آيا تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے دوبارہ منع كر ديا، اور پھر وہ تيسرى بار آيا تو آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" تم شادى ايسى عورت سے كرو جو زيادہ بچے جننے والى ہو اور زيادہ محبت كرنے والى ہو، كيونكہ ميں تمہارى كثرت كے ساتھ فخر كرونگا "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 2050 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 3227 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور پھر نكاح كے مقاصد ميں سے اولاد پيدا كرنا بھى ايك مقصد ہے، كہ مسلمان كى نئى نسل ہو، جو صحيح اور شرعى تربيت پر نشو و نما پائے، اور اس كے گھر والے اور امت مسلمہ كو فائدہ دے.
اور يہ اولاد ايك نعمت بھى ہے اور اس نعمت كى قدر كى پہچان صرف اسے ہى حاصل ہو سكتى ہے جو اس نعمت سے محروم ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى نے اولاد تو دنيا كى زينت بنائى ہے، جيسا كہ درج ذيل آيت ميں ہے.
اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
مال و دولت اور اولاد تو دنيا كى زينت ہے، اور ہاں البتہ باقى رہنے والى نيكياں تيرے رب كے نزديك ازروئے ثواب اور آئندہ كى اچھى توقع كے بہت بہتر ہيں الكھف ( 46 ).
دوم:
عورت كے ليے يقينى ضرورت كے بغير اولاد پيدا نہ ہونے كا آپريشن كرانا اور اولاد پيدا ہونے سے روكنا جائز نہيں، مثلا اگر اس كى زندگى كو حمل سے خطرہ ہو تو پھر ايسا ہو سكتا ہے.
مجمع فقہ الاسلامى كى پانچويں كانفرنس جو ( 1409 ) ہجرى الموافق ( 1988 ) ميں منعقد ہوئى ميں يہ پاس كيا گيا كہ:
" اول:
كوئى بھى ايسا عام قانون لاگو كرنا جائز نہيں جو خاوند اور بيوى كے ليے اولاد پيدا كرنے كى آزادى ميں مخل ہو، اور اس كى تحديد كرے.
دوم:
مرد اور عورت ميں بچے پيدا كرنے كى طاقت كو بالكل ختم كرنا حرام ہے، اسے بانجھ پن كے نام سے پہچانا جاتا ہے، ليكن اگر اس كى كوئى شرعى اعتبار سے ضرورت ہو تو پھر.
سوم:
ايك حمل سے دوسرے حمل كى مدت ميں وقفہ پيدا كرنے كے ليے وقتى طور پر كنٹرول كرنا جائز ہے، يا پھر وقتى طور پر كچھ دير كے ليے روكنا جائز ہے، ليكن يہ بھى اس حالت ميں جب اس كى شرعى اعتبار سے كوئى ضرورت پيش آئے تو پھر، اور خاوند اور بيوى كے مشورہ اور رضامندى سے، شرط يہ ہے كہ ايسا كرنے سے كوئى ضرر اور نقصان نہ ہوتا ہو، اور پھر اس كو روكنے كا طريقہ بھى مشروع ہو، اور اس ميں ٹھرے ہوئے حمل پر زيادتى نہ ہو كہ اسے گرا ديا جائے "
واللہ تعالى اعلم انتہى
ديكھيں: مجلۃ المجمع ( 5 / 748 ).
اس بنا پر بغير كسى ضرورت كے مستقل طور پر منع حمل كے ليے آپريشن كرانا جائز نہيں؛ بلكہ اب آپ پر لازم ہے كہ آپ سے ٹانكے كھلوائيں اگر اس ميں آپ كو كوئى نقصان نہيں ہے.
مزيد آپ سوال نمبر ( 20168 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .