الحمد للہ.
اس ممانعت کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے وارد شدہ حدیث مبارکہ ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جتنے بھی خیر کے کام تھے ان سب کے بارے میں ہمیں مکمل رہنمائی دے دی ہے، اور اسی طرح جتنے بھی برے کام تھے ان تمام کاموں سے ہمیں خبردار اور متنبہ بھی کر دیا ہے، جیسے کہ سیدنا یعیش بن طھفہ غفاری اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ : (میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مہمان ان لوگوں میں شامل ہو کر بنا جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے مہمان بنا کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے وقت اپنے گھر سے باہر آئے - آپ صلی اللہ علیہ و سلم رات کے وقت بھی اپنے مہمان کی خبرگیری کیا کرتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے اپنے پیٹ کے بل لیٹے ہوئے دیکھا تو آپ نے اپنے پاؤں سے مجھے ٹھوکر لگائی اور فرمایا اس انداز سے مت لیٹو کیونکہ اس انداز سے لیٹنا اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے۔) اور ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ: ( آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں اپنے پاؤں کی ٹھوکر سے بیدار کیا اور فرمایا یہ جہنمی لوگوں کے لیٹنے کا طریقہ ہے۔)
مسند احمد مع الفتح الربانی: 14/244-245. اسی طرح امام ترمذی نے اسے حدیث نمبر: 2798 کے تحت بیان کیا ہے، اور امام ابو داود نے اسے کتاب الادب کے تحت حدیث نمبر: 5040 میں بیان کیا ہے، اور یہی حدیث صحيح الجامع 2270 – 2271 میں بھی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے الٹنے منہ لیٹنے سے عمومی طور پر منع کیا ہے، اس میں مرد و زن کی کوئی تفریق نہیں ہے؛ کیونکہ بنیادی طور پر مرد و زن دونوں یکساں شرعی احکامات کے مخاطب ہیں، الا کہ کوئی ایسی دلیل آ جائے جس میں واضح ہو کہ کسی مخصوص حکم میں مرد و خواتین کے درمیان فرق رکھا گیا ہے۔
واللہ اعلم