الحمد للہ.
اول:
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ كى سہيلى كو بخش دے اور اس كے گناہ معاف كرے، اور اسے اس بيمارى سے نجات و عافيت دے، اور اسے نيك و صالح خاوند اور اولاد نصيب فرمائے، يقينا اللہ تعالى اس پر قادر ہے.
دوم:
اس بچى كے والد كے دوست نے جو كچھ كيا وہ ايك بہت بڑا جرم اور اس بچى پر بہت بڑى زيادتى اور ظلم ہے، اور يہ قبيح قسم كى ہم جنس پرستى بھى ہے، اور اس كے ساتھ ساتھ والد اور اس كى بيٹى پر واضح ظلم و زيادتى ہے، ہم اللہ تعالى سے عافيت كے طلبگار ہيں، جو كچھ ہوا اس كا اس بچى پر كوئى گناہ نہيں، كيونكہ وہ اس وقت مكلف ہى نہيں تھى.
اس طرح كے افسوسناك واقعات سے عقل مند شخص كو عبرت حاصل كرنى چاہيے، اس ليے ہر شخص پر واجب ہے كہ وہ اپنے دوست و احباب كو ديكھے جو اس كے راز دان بھى ہوتے ہيں، اور ان كا اس كے گھر بھى آنا جانا ہوتا ہے، كيونكہ بعض لوگ دوست اور امانت دار اور نصحيت كرنے والے كى شكل ميں ظاہر ہوتے ہيں، ليكن حقيقت ميں وہ انسانوں ميں سے شيطان ہيں.
اور پھر اسى كے متعلق رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے نصيحت كرتے ہوئے يہ فرمايا كہ:
" آپ مومن اور ايمان دار شخص كے علاوہ كسى اور كو دوست مت بنائيں، اور متقى و پرہيزگار كے علاوہ آپ كا كھانا بھى كوئى اور نہ كھائے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 2395 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.
سوم:
سرى عادت، يا مشت زنى يہ ہے كہ: اعضاء كے ساتھ كھيلنا، اورشہوت كو ابھارنا حتى كہ منى خارج ہو جائے، چاہے يہ ہاتھ سے ہو يا كسى اور چيز سے يہ ايك قبيح اور گندى اور حرام عادت ہے، اس كى حرمت كے دلائل سوال نمبر ( 329 ) كے جواب ميں بيان ہو چكى ہے، اور اس ميں اس گندى عادت اور بيمارى سے علاج اور بچنے كى راہنمائى بھى كى گئى ہے، آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.
چہارم:
اگر روزے دار روزہ كى حالت ميں مشت زنى كا مرتكب ہو اور منى خارج ہو جائے تو جمہور علماء كرام كے قول كے مطابق اس كا روزہ ٹوٹ جائيگا ليكن اگر اسے ايسا كرنے سے روزہ ٹوٹنے كے حكم كا علم نہ ہو تو كيا اس كا روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اور كيا اس پر اس روزہ كى قضاء واجب ہو گى ؟
اس ميں فقھاء كرام كا اختلاف ہے، اہل علم كى ايك جماعت جن ميں شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ شامل ہيں كہتے ہيں كہ روزہ فاسد نہيں ہو گا اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ نے بھى اسے ہى اختيار كيا ہے، آپ اس كى تفصيل سوال نمبر ( 50017 ) كے جواب ميں ديكھ سكتى ہيں.
اس بہن كو استغفار اور اعمال صالحہ كثرت سے كرنے چاہيں، اور وہ حرام كاموں سے اجتناب كرتے ہوئے صحيح اور راہ مستقيم پر قائم رہے، تو ان شاء اللہ اللہ تعالى اس كے سارے گناہ معاف فرما دےگا.
جيسا كہ درج ذيل فرمان بارى تعالى ميں ہے:
اور يقينا ميں اسے بخش دينے والا ہوں، جو شخص توبہ كرے، اور ايمان لے آئے اور اعمال صالحہ كرے، اور پھر راہ راست پر چلتا رہے طہ ( 82 ).
پنجم:
شادى كرنا بھى ـ بندے كے دوسرے معاملات كى طرح ہى ہے ـ جو اللہ تعالى كى تقدير كے مطابق ہوتى ہے، اور يہ پتہ نہيں چلتا كہ خير وبھلائى كہاں ہے، آيا شادى كى تاخير ميں يا شادى جلد كرنے ميں ؟
انسان كو چاہيے كہ وہ راضى رہے، اور اللہ تعالى كى اطاعت و فرمانبردارى كرے، اور حصول رزق كے اسباب اور ہر تنگى سے نكلنے كے اسباب تلاش كرے، ان اسباب ميں دعاء، اللہ تعالى كى طرف رجوع اور اس كى اطاعت و فرمانبردارى شامل ہيں.
مزيد تفصيل كے ليے آپ سوال نمبر ( 21234 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.
اللہ تعالى سب كو اپنى رضا مندى اور محبوب عمل كرنے كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .