الحمد للہ.
اول:
نفاس كى كم از كم كوئى حد نہيں، ولادت كے ايك يا دو روز بعد بھى عورت كا نفاس ختم ہو سكتا ہے، اور جب بھى عورت كا نفاس ختم ہو اس كو غسل كر كے نماز ادا كرنا ہو گى، چاہے چاليس يوم سے قبل ہى ختم ہو جائے.
امام ترمذى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
صحابہ كرام اور تابعين اور ان كے بعد والے اہل علم كا اس پر اجماع ہے كہ نفاس والى عورت چاليس يوم تك نماز ادا نہيں كرے گى، ليكن اگر اس سے قبل نفاس ختم ہو جائے تو غسل كر كے نماز ادا كرنا ہو گى. انتہى.
مستقل فتوى كميٹى كے فتاوى جات ميں ہے:
" جب نفاس والى عورت كا نفاس چاليس يوم پورے ہونے سے قبل ختم ہو جائے تو وہ غسل كر كے نماز ادا كرے گى اور روزہ بھى ركھےگى، اور اس كا خاوند اس سے جماع بھى كر سكتا ہے " انتہى.
ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 5 / 458 ).
دوم:
اس ليے كہ آپ نے سات يوم تك نماز ادا نہيں كى، حالانكہ آپ كو علم تھا كہ جب عورت پاك ہو جائے تو اس كے ليے نماز كى ادائيگى لازم ہے، چنانچہ آپ كے ذمہ ان سات ايام كى نمازوں كى قضاء لازمى ہے.
قضاء كا طريقہ يہ ہے كہ آپ پہلے دن كى پانچ ( فجر ظہر عصر مغرب اور عشاء ) نمازيں ادا كريں، پھر دوسرے اور تيسرے يوم كى اسى طرح سات دن كى نمازيں مكمل كريں، يہ قضاء فى الفور ادا كرنى واجب ہے اس ميں تاخير نہيں ہو سكتى.
كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" جو شخص نماز بھول جائے تو جب اسے ياد آئے اسى وقت نماز ادا كر لے، اس كے علاوہ اس كا كوئى كفارہ نہيں، " اور ميرے ذكر كے ليے نماز قائم كرو"
صحيح بخارى حديث نمبر ( 597 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 684 ).
اور اگر يہ سارى نمازيں ايك ہى وقت ميں قضاء كرنا آپ كے ليے مشكل ہوں اور اس ميں مشقت ہو تو آپ كچھ نمازيں ادا كر كے آرام كريں اور پھر كچھ دير بعد كچھ نمازيں ادا كرليں، حتى كہ سات يوم كى نمازيں مكمل كريں، چاہے اس ميں كئى دن صرف ہوں، تا كہ مشقت اور حرج كو دور كيا جا سكے.
واللہ اعلم .