جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

بار بار مرتد ہونے والے شخص كا حكم

83117

تاریخ اشاعت : 20-08-2007

مشاہدات : 12767

سوال

سورۃ النساء ميں بيان ہوا ہے كہ تين بار سے زيادہ كفر كرنے والے شخص كا اللہ تعالى اسلام قبول نہيں كرتا، اور نہ ہى اسے ہدايت نصيب كرتا ہے، تو كيا مثلا يہ چيز تين بار نماز ترك كرنے والے شخص پر بھى فٹ ہوتى ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اللہ سبحانہ و تعالى نے اپنى وحى ميں جو عظيم قاعدہ اور اصول بيان كيا ہے، وہ حساب و كتاب اور ثواب و سزا كا قاعدہ و اصول ہے، اور يہ كہ توبہ سابقہ سب گناہ ختم كر كے ركھ ديتى ہے، اور اسلام قبول كرنا سابقہ سارے گناہ معاف كر ديتا ہے، اور توبہ كا دروازہ ہر بندے كے ليے كھلا ہے، چاہے اس نے گناہ اور كفر كا ارتكاب كئى بار كيا ہو، كيونكہ اللہ سبحانہ وتعالى كا فضل و كرم، اور اپنے بندوں پر اس كى رحمت كا تقاضہ يہى ہے كہ وہ توبہ كرنے والے كى توبہ قبول كر كے اس كے گناہ بخش دے.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

آپ ان لوگوں سے كہہ ديں جنہوں نے كفر كا ارتكاب كيا ہے كہ اگر وہ اپنے كفر سے باز آ جائيں تو ان كے سابقہ گناہ بخش ديے جائينگے، اور اگر وہ دوبارہ كفر كا ارتكاب كريں تو پہلے لوگوں كا طريقہ گزر چكا ہے الانفال ( 38 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" كيا تجھے علم نہيں كہ اسلام اپنے سے قبل سابقہ تمام گناہوں كو ختم كر كے ركھ ديتا ہے، اور ہجرت كرنا سابقہ تمام گناہوں كو ختم كرديتى ہے، اور حج سابقہ گناہوں كو مٹا ديتا ہے "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 121 ).

اور اسى طرح مرتد ہونے والا شخص جب اسلام قبول كركے سچى توبہ كر لے تو اس كى توبہ قبول ہونے پر دلالت كرنے والى كئى ايك آيات بھى آئى ہيں:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى اس قوم كو كيسے ہدايت دےگا جنہوں نے ايمان لانے، اور رسول كے حق اور سچا ہونے كى گواہى دينے، اور اپنے پاس واضح دلائل آجانےكے بعد كفر كا ارتكاب كيا، اور اللہ تعالى ظالموں كى قوم كو ہدايت نصيب نہيں كرتا .

ان لوگوں كى سزا يہ ہے كہ ان پر اللہ تعالى اور فرشتوں اور سب لوگوں كى لعنت ہے

اس ميں وہ ہميشہ رہينگے، اور ان كے عذاب ميں كمى نہيں كى جائيگى، اور نہ ہى انہيں مہلت دى جائيگى .

اور اس كے بعد اللہ سبحانہ و تعالى نے فرمايا:

مگر وہ لوگ جنہوں نے اس كے بعد توبہ كر لى، اور اپنى اصلاح كر لى تو يقينا اللہ تعالى بخشنے والا رحم كرنے والا ہے آل عمران ( 86 - 89 ).

ليكن جو شخص مرتد ہو اور پھر كفر و طغيان ميں زيادتى كا مرتكب ہو اور توبہ كرتے ہوئے اسلام كى طرف دوبارہ نہ پلٹے تو اس كے متعلق ہى سورۃ النساء ميں وہ آيت آئى ہے ـ جو سائل نے بيان كيا ہے ـ اور سورۃ آل عمران ميں بھى ان كى توبہ كى عدم قبوليت كا بيان آيا ہے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا جن لوگوں نے ايمان لانے كے بعد كفر كا ارتكاب كيا، اور پھر اور زيادہ كفر كيا تو ان كى توبہ قبول نہيں ہوگى، اور يہى لوگ گمراہ ہيں، يقينا جن لوگوں نے كفر كيا اور وہ كفر كى حالت ميں ہى مر گئے تو ان زمين بھر كر بھى سونا قبول نہيں كيا جائيگا، چاہے وہ بطور فديہ پيش كرے انہى لوگوں كے ليے المناك عذاب ہے، اور نہ ہى ان كا كوئى مددگار ہوگا آل عمران ( 90 - 91 ).

اور ايك مقام پر اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان كچھ اس طرح ہے:

يقينا جو ايمان لائے پھر كفر كيا، اور پھر ايمان لے آئے پھر كفر كر ليا پھر كفر ميں اور بھى زيادتى كرلى اللہ تعالى نہ تو انہيں بخشےگا، اور نہ ہى انہيں راستے كى ہدايت ديگا النساء ( 137 ).

ابن كثير رحمہ اللہ اس كى تفسير ميں كہتے ہيں:

" اللہ تعالى اس شخص كے متعلق خبر دے رہے ہيں جو شخص ايمان لانے كے بعد ايمان سے پھر جائے، اور پھر ايمان لانے كے بعد ايمان سے پھر جائے اور اپنى ضلالت و گمراہى پر قائم رہے، اور اس گمراہى ميں اور زيادتى كرتا ہوا اسى حالت ميں مرجائے تو موت كے بعد اس كى كوئى توبہ نہيں، نہ ہى اللہ تعالى اسے بخشےگا، اور نہ ہى اس سے نكلنے كى راہ اور ہدايت كى طرف كوئى مخرج بنائےگا.

اسى ليے اللہ تعالى نے فرمايا:

نہ تو اللہ تعالى انہيں بخشےگا، اور نہ ہى انہيں صراط مستقيم كى راہ دكھائيگا .

ابن ابى حاتم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ سے مروى ہے: اسى ليے اللہ تعالى نے فرمايا:

پھر انہوں اور بھى زيادہ كفر كيا .

ان كا كہنا ہے: انہوں موت تك اپنے اسى كفر پر اصرار كيا، اور مجاہد رحمہ اللہ كا بھى قول يہى ہے " انتہى.

ديكھيں: تفسير ابن كثير ( 1 / 753 ).

اور شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" جن لوگوں كى توبہ قبول نہيں ہوتى ان كے متعلق كئى اقوال بيان كيے گئے ہيں:

ايك قول يہ ہے كہ: ان كے نفاق كى بنا پر توبہ قبول نہيں ہوتى.

اور ايك قول يہ ہے: اس ليے كہ انہوں نے شرك سے چھوٹے گناہوں سے توبہ تو كر لى ليكن شرك سے توبہ نہيں كى.

اور يہ بھى كہا گيا ہے: موت كے بعد ان كى توبہ قبول نہيں ہوگى.

اور اكثر مثلا حسن، قتادہ، عطاء خراسانى، اور سدى رحمہم اللہ كہتے ہيں كہ: جب ان كى موت آئيگى تو ان كى توبہ قبول نہيں ہوگى، تو اس طرح يہ قول درج ذيل فرمان بارى تعالى كى طرح ہوا:

اور ان لوگوں كى كوئى توبہ نہيں جنہوں نے موت تك برے اعمال كيے، اور جب موت آنے لگى تو كہنے لگا يقينا اب ميں توبہ كرتا ہو، اور نہ ہى ان لوگوں كى جو كفر كى حالت ميں مرتے ہيں النساء ( 18 ).

اور اسى طرح فرمان بارى تعالى ہے:

يقينا جو ايمان لائے پھر كفر كيا، اور پھر ايمان لے آئے پھر كفر كر ليا پھر كفر ميں اور بھى زيادتى كرلى اللہ تعالى نہ تو انہيں بخشےگا، اور نہ ہى انہيں راستے كى ہدايت ديگا النساء ( 137 ).

مجاہد اور دوسرے مفسرين كہتے ہيں:

انہوں نے اور زيادہ كفر كيا .

يعنى موت تك كفر پر ہى قائم رہے.

ميں كہتا ہوں: ( يعنى ابن تيميہ ) اور يہ اس ليے كہ توبہ كرنے والا شخص تو كفر سے رجوع كر ليتا، اور باز آجاتا ہے، اور جو توبہ نہ كرے تو وہ كفر پر قائم ہے، كفر كے بعد كفر ميں اور زيادتى كر رہا ہے.

تو اللہ تعالى كا فرمان: پھر انہوں نے كفر اور زيادہ كيا" يہ اسى طرح ہے كہ كوئى شخص كہے: پھر انہوں نے كفر پر اصرار كيا، اور كفر پر قائم رہے، اور كفر پر ہميشگى كى، تو انہوں نے اسلام لانے كے بعد كفر كيا، اور پھر ان كا كفر اور زيادہ ہوگيا اس ميں كمى نہ ہوئى، تو ان لوگوں كى توبہ قبول نہيں ہو گى، اور يہ وہ توبہ ہے جو موت كے وقت ہو؛ كيونكہ جس نے موت آنے سے قبل توبہ كر لى تو اس نے قريب سے ہى توبہ كى، اور اپنے كفر سے رجوع كر ليا اور باز آگيا، اور اس ميں زيادتى نہ كى، بلكہ اس كا كفر كم ہو گيا.

بخلاف اس شخص كے جو موت ديكھنے تك كفر پر مصر رہے " انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 28 - 29 ).

اور مرتد كے متعلق اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں كہ جب وہ سچى توبہ كر كے اسلام ميں واپس آ جائے تو اللہ تعالى اس كى توبہ قبول كر كے اس كے سابقہ گناہ معاف كر ديتا ہے، چاہے اس نے ارتداد ميں تكرار كيا ہو.

يہ تو آخرت ميں اللہ تعالى كے ہاں ہے.

ليكن دنيا ميں ظاہرى احكام كے متعلق يہ ہے كہ بعض اہل علم كہتے ہيں:

جس نے بار بار ارتداد كا ارتكاب كيا تو ہم اسے قتل كرينگے، اور اس كى توبہ نہيں مانيں گے.

تو اس طرح اہل علم كے ہاں ظاہرى احكام ميں اس كى توبہ قبول كرنے ميں اختلاف پايا جاتا ہے، نہ كہ اللہ سبحانہ وتعالى كے ہاں قبوليت ميں.

ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اجمالا يہ ہے كہ: آئمہ كرام كے ہاں دنيا كے ظاہرى احكام ميں اس كى توبہ قبول كرنے ميں اختلاف ہے، كہ اسے قبول كرتے ہوئے اسے قتل نہ كيا جائے، اور ان كے متعلق اسلام كے حقوق ثابت كيے جائيں.

ليكن باطن ميں اللہ تعالى كے ہاں توبہ كرنے والے كى قبوليت، اور اس كے گناہوں كى بخشش ميں كوئى اختلاف نہيں، جو شخص سچى توبہ كرے اور ظاہرى اور باطنى طور پر گناہ سے باز آ جائے تو اللہ قبول كرتا ہے. انتہى.

ديكھيں: مغنى ابن قدامہ ( 12 / 271 ) طبع ھجر.

شيخ الاسلام ابن تيميہ كہتے ہيں:

" ارتداد ميں تكرار، يا كسى زنديق كى توبہ قبول كرنے كے متعلق فقھاء جب اختلاف كرتے ہيں تو وہ صرف ظاہرى حكم ميں ہے؛ كيونكہ اس كى توبہ سے اسے وثوق نہيں ديا جائيگا.

ليكن جب يہ فرض كيا جائے كہ اس نے باطنى طور پر سچى اور پكى توبہ كر لى ہے تو پھر وہ اللہ تعالى كے درج ذيل فرمان ميں داخل ہو گا:

آپ ميرے ان بندوں كو كہہ ديں جنہوں نے اپنے اوپر ظلم و زيادتى كى ہے كہ وہ اللہ تعالى كى رحمت سے نااميد مت ہوں، يقينا اللہ تعالى سب گناہ معاف كر ديتا ہے، بلا شبہ وہ بخشنے والا اور رحم كرنے والا ہے الزمر ( 53 ). انتہى.

ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 16 / 30 ).

اہل علم كے اقوال ميں سے صحيح قول كے مطابق يہ ہے كہ بار بار ارتداد كا مرتكب ہونے والے شخص كى توبہ ظاہرى احكام ميں بھى قبول كى جائيگى، اور اس پر اسلامى احكام لاگو ہونگے، احناف، شافعيہ ميں سےجمہور اہل علم اور مالكيہ كے ہاں مشہور يہى ہے، اور امام احمد بن حنبل كا دوسرا قول بھى يہى ہے.

ديكھيں: حاشيۃ تبيين الحقائق ( 3 / 284 ) فتح القدير ( 6 / 68 ) الانصاف ( 10 / 332 - 335 ) تحفۃ المحتاج ( 9 / 96 ) كشاف القناع ( 6 / 177 - 178 ) الموسوعۃ الفقھيۃ ( 14 / 127 - 128 ).

اور " المبسوط " ميں على اور ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہم كى طرف قول منسوب ہے كہ:

بار بار ارتداد كا مرتكب ہونے والے شخص كى توبہ قبول نہيں كى جائيگى.

ديكھيں: المسوط ( 10 / 99 - 100 ).

اس بنا پر تارك نماز اگر سچى توبہ كرے تو اس كى توبہ قبول ہو گى چاہے وہ كئى بار ايسا كرے، ليكن بندے كو ڈرنا چاہيے كہ ہو سكتا ہے اسے توبہ سے قبل ہى موت آ جائے، اور اسے توبہ كرنے كا وقت اور توفيق ہى نصيب نہ ہو، اور اللہ تعالى آخرت ميں اسے سزا دينے سے قبل دنيا ميں ہى سزا دے دے.

اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو اپنى وسيع رحمت سے ڈھانپ كر ہمارے حال پر رحم فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب