ہفتہ 27 جمادی ثانیہ 1446 - 28 دسمبر 2024
اردو

تركہ ميں چھوڑے ہوئے گھر كے كرايہ كى تقسيم

83283

تاریخ اشاعت : 05-06-2007

مشاہدات : 4825

سوال

كيا وراثت ميں چھوڑے گئے گھر كا كرايہ بھى اسى قاعدہ اور اصول كے تحت تقسيم كيا جائيگا كہ ايك لڑكے كو دو لڑكيوں كے حصہ كے برابر ديا جائے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

اگر ميت نے اپنے پيچھے اولاد ميں لڑكے اور لڑكياں چھوڑى ہوں تو ہم ميت كے والد اور والدہ يا بيوى سے شروع كرينگے، تو يہ افراد اپنا حصہ ليں گے اور جو كچھ تركہ سے باقى بچے وہ اولاد ميں اس طرح تقسيم كيا جائيگا جس طرح اللہ تعالى نے حكم ديا ہے: كہ ايك لڑكے كو دو لڑكيوں كے برابر حصہ ملےگا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اللہ تعالى تمہيں تمہارى اولاد كے بارہ ميں حكم كرتا ہے كہ ايك لڑكے كا دو لڑكيوں كے برابر حصہ ہے النساء ( 11 ).

اور اسى طرح اگر ميت كے سگھے بھائى اور بہنيں يا پھر والد كى طرف سے بہن بھائى وارث بنيں تو انہيں تركہ ميں سے ان كا حق اس اصول كے تحت تقسيم كيا جائيگا كہ ايك لڑكے كو دو لڑكيوں كے حصہ كے برابر ملےگا.

اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ كئى بھائى اور بہنيں ہوں تو مرد كے ليے دو عورتوں كے برابر حصہ ہے النساء ( 176 ).

اہل علم كے ہاں يہ متفق اور مجمع عليہ مسئلہ ہے.

ابن عبد البر رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور سورۃ النساء كے آخر ميں اللہ تعالى كا يہ فرمان:

اور اگر وہ بھائى مرد اور عورتيں ہوں تو ايك مرد كا دو عورتوں كے برابر حصہ ہے .

دور قديم اور دور جديد كے مسلمان علماء كرام كا كوئى اختلاف نہيں كہ ماں كى طرف سے بھائى كى وراثت اس طرح نہيں، تو ان كا اجماع اس پر دلالت كرتا ہے كہ اس آيت ميں مذكور بھائيوں سے مراد ميت كے ماں اور باپ كى طرف سے بھائى ( سگھے ) ہيں، يا پھر باپ كى طرف سے " انتہى.

ماخوذ از: التمھيد ( 5 / 200 ) اور المغنى ابن قدامہ ( 6 / 162 ) بھى ديكھيں.

فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 16 / 530 ).

ليكن ماں كى طرف سے بھائى برابرى كے حساب سے وارث ہونگے، ان كے مرد اور عورت ميں كوئى فرق نہيں ہوگا، كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور اگر وہ ميت كلالہ ہو چاہے مرد ہو يا عورت اس كا بھائى يا بہن ہو تو ہر ايك كو چھٹا حصہ ہے، اور اگر اس سے زيادہ ہوں تو ايك تہائى ميں سب شريك ہيں النساء ( 12 ).

كلالہ اس مرد يا عورت كو كہتے ہيں جس كا نہ تو باپ ہو اور نہ ہى اولاد، تو ماں كى جانب سے بھائى اس شرط پر وارث بنےگا كہ: ميت كى نہ تو اصل يعنى باپ اور نہ ہى فرع يعنى بيٹا ہو، اور اس كا حصہ چھٹا حصہ ہے، ليكن اگر ايك سے زائد ہوں چاہے وہ مرد ہو يا عورتيں تو وہ ايك تہائى ميں شريك ہونگے اور ايك تہائى ان سب ميں برابر برابر تقسيم ہوگا.

دوم:

رہا مسئلہ وراثت ميں چھوڑے گئے گھر كے كرايہ كا تو يہ كرايہ اس حساب سے تقسيم كيا جائيگا جتنا اس گھر ميں كسى كا حصہ ہے، جب وہ اس گھر كى ملكيت كے اس طرح حقدار ہيں كہ مرد كو دو عورتوں كے برابر ملنا ہے تو پھر كرايہ بھى اسى حساب سے تقسيم كيا جائيگا.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب