الحمد للہ.
اس مال كى سرمايہ كارى نہ كرنے اور اسے تجارت ميں نہ لگانے ميں آپ پر كوئى گناہ نہيں، كيونكہ آپ نے يہ مال حفاظت كے ليے بطور امانت اس سے ليا ہے، تو آپ پر اس كى حفاظت كرنا اور طلب كرنے پر اس كے مالكوں كے سپرد كرنا واجب ہے.
اللہ سبحانہ وتعالى كا فرمان ہے:
يقينا اللہ تعالى تمہيں يہ حكم ديتا ہے كہ تم امانتيں ان كے مالكوں كے سپرد كر دو النساء ( 58 ).
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم امانت اس كے سپرد كرو جس نے امانت تمہارے پاس ركھى ہے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1264 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3534 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
آپ كو چاہيے كہ آپ اس بہن كو يہ نصيحت كريں كہ اس مال ميں زكاۃ واجب ہوتى ہے، اور اگر اسے تجارت ميں نہ لگايا گيا اور اس كى سرمايہ كارى نہ كى گئى تو اسے زكاۃ كھا جائيگى.
يہاں ہم متنبہ كرتے ہوئے ايك حديث كى طرف اشارہ كرتے ہيں:
" خبردار جو كوئى بھى كسى يتيم كا ولى بنے اور اس يتيم كا مال بھى ہو تو وہ اس مال كى تجارت كرے، اور اسے ويسے ہى نہ چھوڑ دے كہ اسے زكاۃ كھا جائے "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 641 ) اس حديث كو علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى نے ضعيف ترمذى ميں ضعيف قرار ديا ہے.
ليكن اس حديث كا معنى اور مفہوم صحيح اور واضح ہے؛ كيونكہ يتيم كا مال بھى دوسرے اشخاص كے اموال كى طرح ہى ہے، جب يہ مال زكاۃ كے نصاب كو پہنچے اور اس پر سال گزر جائے تو اس ميں بھى زكاۃ واجب ہوتى ہے، اور اگر اسے تجارت ميں نہ لگايا جائے اور اس كى سرمايہ كارى نہ كى گئى ہو تو پھر ہر برس اس ميں سے زكاۃ نكالى جائيگى جو اس ميں نقص كا باعث بنے گا.
اور يہ چيز عمر رضى اللہ تعالى عنہ كى كلام سے ثابت ہے ان كا فرمان ہے:
" يتيموں كے اموال كى تجارت كرو تا كہ اسے زكاۃ نہ كھا جائے "
اسے دارقطنى اور بيھقى نے روايت كيا ہے، اور اس كى سند كو صحيح كہا ے.
واللہ اعلم .