الحمد للہ.
اصل ميں طلاق مكروہ ہے؛ كيونكہ اس سے سسرالى رشتہ دارى ميں قطع رحمى ہوتى ہے، اور خاندان بكھر كر اولاد ضائع ہو جاتى ہے.
شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
" اصل ميں طلاق ممنوع ہے، بلكہ بقدر ضرورت مباح كى گئى ہے "
ديكھيں: مجموع الفتاوى ( 33 / 81 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" اصل ميں طلاق مكروہ ہے، اس كى دليل يہ ہے كہ اللہ سبحانہ و تعالى نے ايلاء كرنے والوں كے متعلق فرمايا ہے:
اور وہ لوگ جو اپنى بيويوں سے ايلاء كرتے ہيں .
يعنى وہ قسم اٹھاتے ہيں كہ اپنى بيويوں سے چار ماہ تك مجامعت نہيں كرينگے پھر فرمايا:
اگر وہ لوٹ آئيں تو اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے، اور اگر طلاق كا ہى قصد كر ليں تو اللہ تعالى سننے والا جاننا والا ہے البقرۃ ( 226 - 227 ).
اس ميں كچھ دھمكى سى پائى جاتى ہے، ليكن واپس پلٹ آنے ميں اللہ نے فرمايا: " يقينا اللہ بخشنے والا مہربان ہے " تو يہ اس كى دليل ہے كہ اللہ عزوجل كو طلاق پسند نہيں، اور اصل ميں طلاق مكروہ ہے، اور واقعتا يہى ايسے ہى ہے.
ديكھيں: الشرح الممتع ( 10 / 428 ).
ليكن جب لوگوں كى طبيعت اور ان كا اخلاق اور دين برابر نہيں وہ اس ميں مختلف ہيں كسى كا زيادہ اور كسى كا كم ہے تو اللہ كى شريعت ميں طلاق مشروع كرنا ضرورى تھا، كيونكہ ہو سكتا ہے مرد كے قلت دين يا اس كے برے اخلاق يا پھر غلط طبيعت كى بنا پر عورت كا اپنے خاوند كے ساتھ رہنا اذيت و تكليف كا باعث ہو، اور اسى طرح يہ بھى ہو سكتا ہے كہ آدمى كا بيوى كا اولاد كى تربيت كى صلاحيت نہ ہونے يا پھر اچھے طريقہ سے خاوند كا حق معاشرت ادا نہ كرتى ہو تو ايسى بيوى كے ساتھ رہنے ميں خاوند كو اذيت و تكليف ہو سكتى ہے، چنانچہ يہاں طلاق كى مشروعيت حكمت و طبعيت كے موافق ٹھرتى ہے.
اور يہ بھى ہو سكتا ہے كہ طلاق كے بعد دونوں ہى كوئى ايسا اختيار كر ليں جس سے ان كى زندگى صحيح ہو جائے جيسا كہ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:
اور اگر وہ عليحدہ ہو جائيں تو عنقريب اللہ تعالى انہيں اپنى وسعت سے غنى كر ديگا، اور اللہ سبحانہ و تعالى وسعت والا حكمت والا ہے النساء ( 130 ).
اس ليے طلاق دنيا كى انتہا نہيں، ہو سكتا ہے جب خاوند اور بيوى كى طبيعتوں ميں نفرت تھى، اور سلوك و اخلاق اور افعال ميں موافقت نہ تھى تو اس ميں طلاق ہى صحيح وسيلہ ہو سكتا ہے.
اس ليے ہم آپ كو يہى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ اپنے اور بيوى كے خاندان والوں سے عقل و دانش والے افراد كو درميان ميں لائيں تا كہ وہ آپ كى بيوى كے سلوك اور معاملات ميں تغير كو اسے سمجھا كر مطمئن كر سكيں، اور آپ سے وعدہ كرے كہ ازدواجى زندگى ميں وہ آپ كے ساتھ صحيح رہے گى اور اس ميں كوئى انحراف اور غلطى نہيں ہوگى.
اور اسے بتايا جائے كہ اس طرح تو يہ شادى برقرار ركھى جا سكتى ہے، اگر تو وہ اسے قبول كر لے تو الحمد للہ، ہو سكتا ہے اللہ تعالى آپ كے مابين محبت و الفت پيدا كر دے اور آپ خير و بھلائى پر اكٹھے اور جمع رہيں.
ہم آپ كو يہ بھى نصيحت كرتے ہيں كہ آپ شادى سے قبل اسے كچھ عرصہ تك موقع ديں تا كہ آپ پتہ چل سكے كہ وہ آپ كے ساتھ زندگى بسر كرنے ميں كتنى رغبت ركھتى ہے، پھر اسے اس كو نافذ كرنے ميں بالفعل كتنى قدرت حاصل ہے.
كيونكہ آپ نے اس كى متعلق جو كچھ بيان كيا ہے اس كى بنا پر ہميں تو اس موافقت كى رغبت ميں شك محسوس ہوتا ہے يا پھر اس كى قدرت پر شك ہے.
اور اگر وہ قبول نہيں كرتى تو ہمارى رائے يہى ہے كہ اسے طلاق دے ديں، اور رخصتى يا پھر اولاد ہو جانے كے بعد طلاق ہونے سے آپ كے ليے اور اس كے ليے بھى اب طلاق كا ہونا بہتر ہے، اگر وہ ايسا كر ليتى ہے اور طلاق ہو جاتى ہے تو آپ پر كوئى گناہ نہيں.
كيونكہ يہاں آپ كے حق ميں طلاق يا تو واجب ہوگى يا پھر مستحب اور خاص كر جب وہ مخلوط مكان پر ملازمت كرنے پر مصر ہو تو اسے طلاق دينے كے ليے يہى كافى ہے، اور اگر اس كے ساتھ اور معاملات بھى مل جائيں تو پھر كيسے ؟!
واللہ اعلم .