جمعہ 19 رمضان 1445 - 29 مارچ 2024
اردو

شادى كے ليے خاوند كى معاونت كرنا چاہتى ہے ليكن بھائى نہيں كرنے ديتے

83748

تاریخ اشاعت : 02-04-2013

مشاہدات : 4962

سوال

ميرى عمر (23 ) برس ہے ميں اپنى شادى كے ليے اپنے منگيتر كى شادى كے اخراجات ميں معاونت كرنا چاہتى ہوں كيونكہ اس كى مالى حالت بہتر نہيں، ليكن ميرے بھائى ايسا نہيں كرنے ديتے، حالانكہ ميں اپنے خاص مال سے تعاون كرنا چاہتى ہوں، كيا ايسا كرنا جائز ہے، يا كہ اس پر واجب ہے كہ وہ اپنى ضروريات خود پورى كرے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے شادى كے اخراجات ميں اپنے منگيتر كا تعاون كرنے كى نيت كر كے بہت اچھا كيا ہے، تا كہ آپ كى شادى كى تكميل جلد ہو سكے، آپ اس پر شكريہ كى مستحق ہيں اور يہ چيز دين متين اور عقل و دانشمندى كى دليل ہے.

آپ كا اپنے منگيتر كى شادى ميں تعاون كرنا اس كے دين و ايمان ميں معاونت كہلاتى ہے، اور يہ عظيم الشان اطاعت ميں آتا ہے، اور شريعت مطہرہ ميں قابل تعريف امر ہے، اور مال خرچ كرنے كے عظيم مصرف ميں شامل ہوتا ہے.

ثوبان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

جب درج ذيل آيت نازل ہوئى:

اور وہ لوگ جو سونے اور چاندى كو جمع كر كے ركھتے ہيں .

تو ايك سفر ميں رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ تھے، آپ كے كسى صحابى نہ كہا:

سونے اور چاندى كے متعلق جو كچھ نازل كيا جا چكا ہے وہ تو نازل ہوگيا، اگر ہميں پتہ چل جائے كہ كونسا مال اچھا ہے تو ہم وہ حاصل كريں.

چنانچہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ذكر كرنے والى زبان، اور شكر كرنے والا دل، اور مومنہ بيوى جو خاوند كے ايمان پر اس كى معاونت كرے "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 3094 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1856 ).

ابن ماجہ كے يہ الفاظ ہيں:

" تم ميں سے كوئى ايك آخرت كے معاملہ ميں اس كى مدد كرے "

اس حديث كو امام ترمذى نے حسن اور علامہ البانى رحمہ اللہ صحيح ترمذى ميں صحيح قرار ديا ہے.

شيخ مباركپورى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" اور مومنہ بيوى جو اس كے ايمان ميں اس كى معاونت كرے "

يعنى خاوند كے دين پر اس كى معاونت كرے، كہ اسے نماز روزہ اور دوسرى عبادات ياد دلائے، اور اسے زنا وغيرہ دوسرى حرام اشياء سے منع كرے.

ديكھيں: تحفۃ الاحوذى ( 8 / 390 ).

اس ميں كوئى شك و شبہ نہيں كہ شادى آدمى كے ليے اطاعت و فرمانبردارى ميں ممد و معاون ثابت ہوتى ہے، اور اسے حرام كاموں مثلا حرام نظر اور حرام سننے سے روكتى ہے اور اسى طرح زنا كارى كے وقوع سے بھى روكتى ہے.

يہ تو ابتدائى اشياء تھيں، ليكن آپ كو چند ايك امور كا خيال كرنا چاہيے جو درج ذيل ہيں:

ـ شادى كے معاملہ ميں سنجيدگى اختيار كرنا اور اس كے اخراجات اور ضروريات پورى كرنے كى كوشش كرنا، كيونكہ بعض لوگ مطلوبہ چيز كو حاصل كرنے ميں سنجيدہ نہيں ہوتے اور نہ ہى اس كى كوشش كرتے ہيں.

ـ اگر منگيتر خاوند شادى كے مسئلہ ميں سنجيدہ ہے اور شادى كے كچھ اخراجات پورے كرنے سے عاجز ہے تو پھر اس كى كچھ ضروريات پورى كرنے ميں كوئى حرج نہيں، مثلا بيوى كچھ گھريلو سامان خريدنے ميں يا پھر شادى كى تقريب كے كچھ اخراجات برداشت كرنے ميں شريك ہو سكتى ہے.

ـ منگيتر شخص اپنى منگيتر لڑكى كے ليے اجنبى كى حيثيت ركھتا ہے، جب تك نكاح نہيں ہوتا وہ اجنبى ہى رہے گا، اس ليے منگنى كے دوران ان كا آپس ميں خلوت يا مصافحہ كرنا، يا اكٹھے باہر جانا منع ہے، بلكہ وہ بھى دوسرے اجنبى مردوں كى طرح ہى ہے.

مزيد آپ سوال نمبر ( 2572 ) كے جواب كا مطالعہ كريں.

اللہ سبحانہ و تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ آپ دونوں كو ان امور كى توفيق سے نوازے جس سے اللہ راضى ہوتا ہے اور جنہيں پسند كرتا ہے، اور آپ كو نيك و صالح اولاد عطا فرمائے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب