اتوار 16 جمادی اولی 1446 - 17 نومبر 2024
اردو

كيا بيوى كا علاج معالجہ خاوند كے ذمہ واجب ہے ؟

83815

تاریخ اشاعت : 27-05-2013

مشاہدات : 6427

سوال

اگر بيوى بيمارى ہو جائے وہ بيمارى دائمى ہو يا عارضى تو كيا بيوى كے علاج معالجہ كے اخراجات خاوند كے ذمہ واجب ہيں، يا بيوى اولاد چاہتى ہے ليكن اس ميں اسے كچھ مشكلات درپيش ہوں تو كيا شرعا خاوند پر واجب ہے كہ وہ اس طرح كے معاملات ميں علاج معالجہ كا خرچ ادا كرے؟
اور اگر شرعا اس طرح كے علاج معالجہ كا خاوند پر واجب نہيں ـ كيونكہ ميں نے يہى سنا ہے ـ تو پھر عورت اس عورت كو كيا كرنا چاہيے جس كے پاس نہ تو كوئى اپنا ذاتى مال ہے، اور نہ ہى خاوند اسے جمع كرنے كے ليے جيب خرچ ديتا ہے، اور جب بيمار ہو تو علاج معالجہ كے ليے عورت كيا كريگى ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

مذاہب اربعہ كے جمہور فقھاء كرام كے مطابق بيوى كے علاج معالجہ كے اخراجات خاوند كے ذمہ واجب نہيں، ان ميں سے كچھ نے اس كى علت يہ بيان كى ہے كہ يہ اس كى عادت والى ضرورى حاجات ميں شامل نہيں، بلكہ امر طارئ ہے.

امام شافعى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:

" مرد كے ليے اپنى بيوى كى جانب سے قربانى كرنى ضرورى نہيں، اور نہ ہى اس كے ليے بيوى كے علاج معالجہ پر ڈاكٹر اور حجام كى اجرت واجب ہے " انتہى

ديكھيں: الام ( 3 / 337 ).

اور شرح منتھى الارادات ميں درج ہے:

" خاوند كو بيوى كى دوائى اور ڈاكٹر كى اجرت لازم نہيں؛ كيونكہ يہ اس كى ضرورى اور عادت والى حاجات ميں شامل نہيں ہے، بلكہ عارضى ہے اس ليے يہ لازم نہيں " انتہى

ديكھيں: شرح منتہى الارادات ( 3 / 227 ) مزيد آپ حاشيۃ ابن عابدين ( 3 / 575 ) اور شرح الخرشى على مختصر خليل ( 4 / 187 ) كا مطالعہ بھى كريں.

مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام سے آدمى كا اپنى بيوى كا علاج معالجہ كے متعلق حكم دريافت كيا گيا تو كميٹى كا جواب تھا:

" كتاب و سنت كے دلائل سے ثابت ہے كہ لوگوں كے ساتھ حسن سلوك سے پيش آيا جائے، اور خاص كر اقرباء و رشتہ داروں كے ساتھ حسن سلوك لازمى كيا جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

يقينا اللہ تعالى عدل و انصاف اور احسان كرنے اور قريبى رشتہ داروں كو دينے كا حكم ديتا ہے النحل ( 90 ).

اور ايك دوسرے مقام پر اللہ رب العزت كا فرمان ہے:

اور تم اللہ كى عبادت كرو، اور اس كے ساتھ كسى كو شريك مت ٹھراؤ، اور والدين كے ساتھ اور اقرباء و رشتہ داروں اور يتيموں اور مسكينوں اور قرابت والے پڑوسى اور اجنبى پڑوسى اور پہلو كے ساتھى اور مسافر كے ساتھ بھى اور ان كے ساتھ جن كے تمہارے دائيں ہاتھ مالك ہيں، يقينا اللہ تعالى ايسے شخص سے محبت نہيں كرتا جو اكڑنے والا اور شيخى مارنے والا ہو النساء ( 36 ).

اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم ميں سب سے بہتر اور اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں كے ليے اچھا ہے، اور ميں تم ميں اپنے گھر والوں كے ليے سب سے بہتر ہوں "

چنانچہ مسلمان شخص كے ليے اپنے اہل و عيال اور بيوى بچوں كے ساتھ حسن سلوك كرنا چاہيے، رہا علاج معالجہ اور اس كے اخراجات خاوند پر نفقہ اور رہائش كى طرح واجب نہيں ليكن استطاعت و قدرت ہوتے ہوئے اسے يہ اخراجات كرنے چاہيں؛ كيونكہ اللہ سبحانہ و تعالى كا عمومى فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت كا سلوك كيا كرو النساء ( 19 ).

اور مندربہ بالا سابقہ حديث كے عموم كى بنا پر بھى " انتہى

اور بعض علماء كرام كہتے ہيں كہ بيوى كے علاج معالجہ كے اخراجات خاوند پر واجب ہيں؛ كيونكہ يہ بھى حسن معاشرت ميں شامل ہوتا ہے؛ اور اس ليے بھى كہ بعض اوقات تو دوائى كى ضرورت و حاجت كھانے پينے سے كم نہيں ہوتى.

ڈاكٹر وہبۃ زحيلى كا كہنا ہے:

" مذاہب اربعہ كے فقھاء كرام كا فيصلہ ہے كہ خاوند پر اس كى بيمار بيوى كے علاج معالجہ اور ڈاكٹر اور حجام كى فيس اور دوائى كى قيمت واجب نہيں ہے، بلكہ اس كى قيمت اور اجرت تو بيوى كے ذاتى مال سے ادا كى جائيگى، اور اگر بيوى كے پاس مال نہيں تو پھر اس شخص كے ذمہ ہوگا جس كے ذمہ اس كا نان و نفقہ واجب ہے مثلا بيٹا اور باپ اور اس كے ورثاء ميں جو وارث بنتے ہوں.

كيونكہ علاج معالجہ تو جسم كے اصل كى حفاظت ہے اس ليے فائدہ و منفعت كے مستحق شخص پر واجب نہيں ہوگا، جيسا كہ كرايہ پر حاصل كى گئى عمارت كا خرچ عمارت كے مالك پر ہے نہ كہ كرايہ دار پر....

مجھے يہى محسوس ہوتا ہے كہ ماضى ميں علاج معالجہ اساسى حاجت نہ تھى، اس ليے انسان غالبا علاج كا محتاج نہ تھا، كيونكہ وہ صحت و پرہيز كے اصول و قواعد كا التزام كيا كرتا تھا، چنانچہ فقھاء كرام كا اجتھاد ان كے اپنے دور كے عرف پر مبنى ہے.

ليكن اب اس دور ميں علاج معالجہ كى ضرورت تو كھانے پينے كى ضرورت و حاجت بن چكى ہے، بلكہ اس سے بھى اہم ہے؛ كيونكہ مريض ہر علاج كے ليے استعمال كى جانے والى چيز كو ہر چيز پر فضيلت ديتا ہے، اور كيا اسے تكليف ہو اور درد سے كراہ رہا ہو تو كيا وہ كھانا كھائيگا ؟!

اس ليے ميرى رائے تو يہى ہے كہ علاج معالجہ كے اخراجات خاوند پر اسى طرح واجب ہيں جس طرح دوسرا ضرورى نفقہ واجب ہے..... كيا يہ حسن معاشرت اور حسن سلوك ہے كہ جب بيوى تندرست ہو تو خاوند اس سے استمتاع و فائدہ اٹھائے، اور جب بيمار ہو جائے تو اسے علاج معالجہ كے ليے ميكے بھيج دے؟! " انتہى

ديكھيں: الفقہ الاسلامى و ادلتہ ( 10 / 7380 ).

شيخ حمد بن عبد اللہ الحمد زاد المستقنع كى شرح ميں لكھتے ہيں:

" اس مسئلہ ميں دوسرا قول يہ ہے كہ: اور مذہب ميں بھى يہى قول ہے كہ علاج معالجہ خاوند كے ذمہ واجب ہے، اور ظاہر بھى يہى ہے؛ كيونكہ ايسا كرنے ميں ہى حسن معاشرت ہے، اللہ تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كے ساتھ حسن معاشرت اختيار كرو .

يہ حسن معاشرت نہيں كہ بيوى بيمار ہو اور اسے ڈاكٹر كے پاس نہ لے جايا جائے، اور نہ ہى اس كى دوائى كى قيمت دى جائے.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

اور ان عورتوں كو بھى اسى طرح حقوق حاصل ہيں جس طرح ان عورتوں پر حق ہيں اچھے طريقہ سے .

اس ليے صحيح يہى ہے كہ بيوى كا علاج معالجہ اور اس كے اخراجات خاوند كے ذمہ واجب ہيں " انتہى

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب