الحمد للہ.
اگر تو ذبح سے مقصود قربانى يا عقيقہ كا جانور ہے، اور جہاں آپ رہائش پذير ہيں وہاں ذبح كرنا مشكل ہے تو آپ كے ليے افضل يہى ہے كہ آپ اس شخص كو قربانى كى رقم كسى دوسرے ملك ارسال كريں جو آپ كى طرف سے قربانى كا جانور ذبح كر دے، جہاں فقراء و مساكين اور قربانى كے اہل اور محتاج لوگ ہوں؛ كيونكہ قربانى يا عقيقہ كا جانور ذبح كرنا اس كى قيمت صدقہ كرنے سے زيادہ اولى اور افضل ہے.
امام نووى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
فرع: ہمارے نزديك عقيقہ كرنا جانوى كى قيمت صدقہ كرنے سے افضل ہے، امام احمد رحمہ اللہ اور ابن منذر نے بھى يہى كہا ہے " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 8 / 414 ).
اور " مطالب اولى النھى " ميں ان كا كہنا ہے:
( اور اس كا ذبح كرنا ) يعنى قربانى ذبح كرنا ( اور ) عقيقہ ( كا جانور ذبح كرنا ) اس كى قيمت صدقہ كرنے سے بالنص افضل ہے، يعنى اس پر امام احمد رحمہ اللہ نے بالنص بيان كيا ہے ( اور اسى طرح قربانى بھى اس حديث كى بنا پر ( يوم النحر والے دن ابن آدم كا خون بہانے سے زيادہ اللہ تعالى كو كوئى بھى عمل محبوب نہيں، اور وہ روز قيامت آئيگا تو اس كے سينگ، اور كھر اور اس كے بال اپنے ساتھ لائيگا، اور زمين پر گرنے سے قبل اللہ تعالى كے ہاں خون مقام حاصل كر ليتا ہے، چنانچہ اس سے اپنے نفسوں كو اچھا بناؤ"
اسے ابن ماجہ نے روايت كيا ہے.
اور نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے قربانى كا جانور خود ذبح كيا اور قربانى كے اونٹ بھى اور ان كے بعد آنے والے خلفاء نے بھى ذبح كيا؛ اور اگر قربانى كے جانور كى قيمت صدقہ كرنا افضل ہوتى تو اس كو نہ چھوڑتے " انتہى.
مذكورہ بالا حديث علامہ البانى رحمہ اللہ نے السلسلۃ الضعيفہ حديث نمبر ( 526 ) ميں اسے ضعيف قرار ديا ہے.
شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى سے درج ذيل سوال كيا گيا:
كيا جس ملك اور علاقے ميں شخص خود موجود ہو اسى جگہ قربانى كا جانور ذبح اور نحر كرنا جائز ہے، يا كہ اس كى قيمت اپنے ملك يا كسى دوسرے اسلامى ملك ارسال كرنى جائز ہے ؟
شيخ رحمہ اللہ تعالى كا جواب تھا:
افضل يہى ہے كہ جب آپ كے اہل و عيال آپ كے ساتھ ہوں تو اپنے ملك ميں ہى قربانى كريں، اور اگر آپ كے اہل و عيال كسى اور جگہ ہوں اور ان كے ليے قربانى كرنے والا كوئى نہيں تو آپ ان كو قربانى كرنے كے ليے رقم ارسال كريں " انتہى.
ماخوذ از: فتاوى الشيخ بن عثيمين ( 24 / 207 ).
واللہ اعلم .