الحمد للہ.
اول:
اس بنگلے كے ذمہ دار اور نگران خاوند نے بنگلہ سے برتن اٹھا كر غلطى كى ہے، چاہے وہ كسى شخص كى ملكيت تھى يا سركارى، كيونكہ حكومت كا مال عام مسلمانوں كى ملكيت ہے، اور اس پر زيادتى اور ظلم كرنا عمومى مال پر زيادتى كے مترادف ہے جو كہ ايك خطرناك معاملہ اور بڑا گناہ ہے.
اس كے ليے واجب تو يہ تھا كہ وہ اللہ تعالى كے ہاں اس عمل كى توبہ كرتا، اور جو كچھ ليا تھا اسے واپس كرتا، اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ اسے معاف فرمائے.
امام احمد رحمہ اللہ نے سمرہ بن جندب رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جو ہاتھ نے ليے ہے وہ اسے واپس كرنے تك اس كا ذمہ دار ہے "
مسند احمد حديث نمبر ( 20098 ) شيخ ارنؤوط نے اسے حسن لغيرہ كہا ہے.
دوم:
بيوى كو چاہيے كہ وہ ان برتنوں كو اس كى جگہ واپس لوٹائے، اگرچہ ايسا كرنے ميں اس كے ليے كوئى حرج اور مشكل بھى پيش آئے، كيونكہ ايسا كرنا اس كے خاوند سے تخفيف اور اس حرام مال كو اڑانے كے گناہ سے خلاصى اور چھٹكارا ہے، اور اس كے ليے ان برتنوں كو توڑنا كسى بھى حالت ميں جائز نہيں، اور اگر انہيں واپس كرنا ممكن نہ ہو، يا پھر اس كے گمان پر غالب ہو كہ انہيں واپس كرنے سے زيادہ خرابى پيدا ہوگى، تو پھر وہ انہيں عام مسلمانوں كے فائدہ كے ليے بنا دے، يا انہيں فروخت كر كے اس كى قيمت ان كسى عام منفعت ميں لگا دے، يا پھر صدقہ كر دے.
اور جب يہ معلوم ہو جائے كہ بنگلہ اور اس ميں جو كچھ تھا وہ ناحق تھا تو برتن اس كے مالك كو واپس كيے جائيں ( اس كے سابقہ ذمہ دار كو ) اگر ممكن ہو سكے، اور اگر اس تك پہنچنا يا اس كے ورثاء تك پہنچنا ممكن نہ ہو تو پھر وہ برتن يا ان كى قيمت صدقہ كر دى جائے.
امام نووى رحمہ اللہ " المجموع " ميں لكھتے ہيں:
" غزالى كا كہنا ہے: اگر اس كے پاس حرام مال ہو اور وہ اس سے توبہ كرنا اور برئى الذمہ ہونا چاہتا ہو تو اگر اس كا كوئى معين مالك ہو تو وہ مال اسے واپس كر دے يا اس كے وكيل كو واپس كرے، اور اگر اس كا مالك فوت ہو چكا ہو تو يہ مال اس كے ورثاء كے سپرد كرنا ہوگا، اور اگر وہ مال كسى ايسے مالك كا ہو جسے وہ جانتا بھى نہ ہو، اور اس كى معرف اور پہچان بھى نہ ہوسكے تو وہ مال عام مسلمانوں كى مصلحت ميں صرف كرنا چاہيے، مثلا پل اور راستوں كى تعمير، اور مساجد، اور مكہ كے راستوں كى مرمت اور تعمير پر، اور اس طرح كے دوسرے كاموں ميں جو سب مسلمانوں كے ليے مشتركہ ہيں.
وگرنہ يہ مال فقراء و مساكين پر خرچ كر ديا جائے، اور اس كى ذمہ دارى قاضى لے اگر وہ عفت و عصمت كا مالك ہو، اور اگر وہ عفيف نہيں تو پھر اس كے سپرد كرنا صحيح نہيں... اور اگر وہ فقير اور محتاج شخص كو ديا جائے تو يہ مال اس كے ليے حرام نہيں ہوگا، بلكہ اس كے ليے حلال ہے، اور اگر وہ فقير اور محتاج ہو تو اس كے ليے اپنےاور اپنے اہل و عيال پر وہ مال صدقہ كرنا جائز ہے، كيونكہ اگر اس كے اہل و عيال فقير ہيں تو يہ وصف ان ميں بھى موجود ہے، بلكہ كسى اور پر صدقہ كرنے سے بہتر ہے كہ اپنے اہل و عيال پر صدقہ كرے، اور اس كے ليے يہ بھا جائز ہے كہ وہ اپنى ضرورت كے مطابق اس ميں سے مال لے لے كيونكہ وہ خود بھى فقير ہے.
غزالى نے اس كے متعلق جو كچھ يہ كہا ہے اصحاب نے اسے دوسروں نے بھى نقل كيا ہے، اور وہ اسى طرح ہے جس طرح انہوں نے كہا ہے، اور غزالى نے بھى اسے معاويہ بن ابى سفيان رضى اللہ عنہما وغيرہ سلف: امام احمد، اور حارث المحاسبى اہل ورع و تقوى وغيرہ سے نقل كيا ہے، كيونكہ اس مال كو تلف اور ضائع كرنا، اور سمندر ميں پھينكنا جائز نہيں، تو پھر صرف مسلمانوں كى مصلحت عامہ كے ليے صرف كرنے كے علاوہ كچھ اور باقى نہيں رہتا. اللہ سبحانہ وتعالى كو ہى زيادہ علم ہے.
غزالى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اگر حكمران كى طرف سے كوئى حرام مال اس كے ہاتھ لگے تو كچھ لوگوں كا كہنا ہے: وہ اسے حكمران كو واپس كردينا چاہيے، تو وہ اپنى ملكيت كا زيادہ علم ركھتا ہے، اور وہ اسے صدقہ نہ كرے، الحارث المحاسبى نے يہى قول اختيار كيا ہے.
اور دوسرے كچھ لوگوں كا كہنا ہے: اگر اسے يہ علم ہو جائے كہ حكمران وہ مال اس كے مالك كو واپس نہيں كريگا تو اسے وہ مال صدقہ كر دينا چاہيے؛ كيونكہ حكمران كو وہ مال واپس كرنا اور ظلم زيادہ كرنا ہے.
غزالى كہتے ہيں: اختيار كردہ چيز يہى ہے كہ اگر اسے معلوم ہو جائے كہ حكمران اس مال كے مالك كو واپس نہيں كريگا تو وہ مالك كى جانب سے صدقہ كردے.
ميں كہتا ہوں ( قائل امام نووى ہيں ) مختار يہ ہے كہ اگر اسے يہ علم ہو جائے كہ حكمران اسے كسى باطل اور ناحق مصرف ميں صرف كريگا يا پھر وہ ظاہرى گمان يہى كرے تو پھر اس كے ليے لازم ہے كہ وہ اسے مسلمانوں كى مصلحت ميں صرف كردے، مثلا پل وغيرہ كى تعمير ميں، اور اگر وہ ايسا كرنے سے عاجز ہو اور كسى خوف وغيرہ كى بنا پر ايسا كرنے ميں مشكل ہو تو ہ سب سے زيادہ ضرورتمند اور محتاج شخص پر خرچ كر دے، اور سب سے زيادہ ضرورتمند مسلمانوں كے كمزور لشكر ہيں، اور اگر اس كا گمان يہ ہو كہ حكمران اسے باطل كام ميں صرف نہيں كريگا تو وہ مال اسے يا اس كے نائب كے سپرد كر دينا چاہيے، اگر بغير كسى نقصان اور ضرر كے ايسا كرنا ممكن ہو، كيونكہ حكمران كو عام مصلحت اور منفعت كا علم زيادہ ہوتا ہے اور وہ اسے پورا كرنے كى بھى استطاعت زيادہ ركھتا ہے اور اگر حكمران كو واپس كرنے ميں اسے كوئى ضرر اور نقصان لاحق ہوتا ہو تو پھر وہ اسے ان مصاريف ميں صرف كر دے جو ہم بيان كر چكے ہيں، كہ اگر اس كا خيال يہ ہو حكمران اس مال كو كسى باطل كام ميں صرف كريگا " انتہى.
ديكھيں: المجموع للنووى ( 9 / 428 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اگر كوئى انسان كوئى مال چورى كرے اور پھر فوت ہو جائے تو اس كے ورثاء كے ليے وہ مال وراثت ميں لينا حلال نہيں، پھراگر وہ اس مال كے مالك كو جانتا ہو تو وہ اسے واپس كرے، وگرنہ اس مال كو اس مالك كى جانب سے صدقہ كر دے " انتہى
ديكھيں: لقاءات الباب المفتوح ( 1 / 304 ).
اور شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كا يہ بھى كہنا ہے:
" ..... اگر آپ نے كسى بھى شخص كا كسى ادارے وغيرہ كا مال چورى كيا تو آپ پر واجب ہے كہ جس سے وہ مال چورى كيا گيا ہے اس سے رابطہ كركے وہ مال اس تك پہنچائيں، ليكن ہو سكتا ہے كہ انسان يہ خيال كرے كہ ايسا كرنا اس كے ليے مشكل ہو اور مثلا اس كے ليے اس كے پاس جا كر يہ كہنا مشكل ہو كہ ميں نے تيرى يہ چيز چورى كى ہے، اور يہ يہ اشياء اڑائى ہيں، تو اس حالت ميں آپ اس تك وہ رقم پہنچا ديں مثلا كسى دوسرے طريقہ سے كہ آپ اس كے كسى شخص كو دے ديں، اور اس سے كہ يہ فلاں شخص كى رقم ہيں اور وہ اس كا قصہ بيان كرے، اور اسے كہے كہ ميں نے اب توبہ كر لى ہے، ميرے گزارش ہے كہ يہ مال اس تك پہنچا دو.
اور جب وہ ايسا كر لے تو اللہ تعالى كا فرمان ہے:
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے تو اللہ تعالى اس كے ليے نكلنے كا راہ بنا ديتا ہے الطلاق ( 2 ).
اور جو كوئى بھى اللہ تعالى كا تقوى اختيار كرتا ہے اللہ تعالى اس كے معاملہ ميں آسانى پيدا فرما ديتا ہے الطلاق ( 4 ).
اور اگر فرض كيا جائے كہ آپ نے ايسى شخص كى چورى كى جسے اب آپ جانتے بھى نہيں اور نہ ہى يہ علم ہے كہ وہ كہاں ہے تو اس كا معاملہ پہلے سے بھى آسان ہے؛ كيونكہ آپ كے ليے چورى كردہ مال اس كے مالك كى جانب سے صدقہ كرنا ممكن ہے، تو اس طرح آپ اس سے برى الذمہ ہو جائينگے " انتہى
ديكھيں: فتاوى اسلاميۃ ( 4 / 162 ).
واللہ اعلم .