جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

شراب كى فروخت سے حاصل كردہ كمائى ميں سے مہر كى ادائيگى

85419

تاریخ اشاعت : 10-12-2009

مشاہدات : 6514

سوال

كچھ عرصہ قبل ميں ايك ايسے شخص كى منگيتر تھى جو ايك اجنبى ملك ميں ملازمت كرتا تھا اور اس كى امپورٹ اور ايكسپورٹ كى كمپنى تھى، اور اس نے تين ماہ كے بعد ايك عربى ہوٹل كھول ليا اور اس ميں شراب بھى فروخت كرتا تھا اور خود بھى شراب نوشى كرتا تھا، تو كيا اس نے جو مجھے طلاق كے بعد جو باقى مانندہ مہر ادا كيا ہے وہ حرام ہو گا ؟
نوٹ: جب اس كا رشتہ آيا تھا اور منگنى ہوئى تو مجھے علم نہيں تھا كہ وہ شراب نوشى كرتا ہے اور نماز بھى ادا نہيں كرتا، اس نے مجھے كہا تھا كہ وہ نماز ادا كرتا ہے اور دو بار عمرہ بھى كيا ہے ).

جواب کا متن

الحمد للہ.

آپ نے جو باقى مانندہ مہر ليا ہے اس ميں كوئى حرج نہيں چاہے يہ مال آپ كے خاوند نے مذكورہ بالا طريقہ سے ہى كمايا ہو اس كى دو وجہيں ہيں:

اول:

اہل علم كا فيصلہ ہے كہ: جب كسى شخص كا مال مخلوط ہو يعنى اس ميں حلال اور حرام دونوں ہوں اور امتياز نہ ہو سكے تو اس كے ساتھ خريدوفروخت اور قرض وغيرہ كا لين دين كرنا جائز ہے، اور اسى طرح اس سےكھانا بھى جائز ہے.

كيونكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور صحابہ كرام نے يہوديوں كے ساتھ لين دين كيا، اور ان كا كھانا بھى كھايا حالانكہ ان كا مال حرام سے پاك نہيں اس ميں ضرور حرام پايا جاتا ہے؛ كيونكہ وہ سود خور ہيں، اور لوگوں كا باطل طريقہ سے مال كھاتے ہيں.

اور امتياز نہ ہونے كا معنى اور مقصد يہ ہے كہ اس مال ميں سے حلال اور حرام كى تميز نہ ہو سكتى ہو، مثلا آپ كے خاوند كى كمائى اور مال ميں شراب كى قيمت بھى تھى اور باقى دوسرے مباح اور حلال كھانے پينے كى قيمت بھى تو اس طرح يہ ايك دوسرے كے ساتھ خلط ملط ہو گيا.

دوسرا:

بعض اہل علم كہتے ہيں كہ وہ مال تو صرف حرام كمائى كرنے والے پر حرام ہو گا، اور جو اسے مباح طريقہ سے حاصل كرے اس كے ليے حرام نہيں.

اور آپ كے خاوند نے جو مال شراب فروخت كركے كمايا وہ اس كے خبيث سبب كى بنا پر حرام ہوا، جو كہ صرف آپ كے خاوند پر حرام ہو گا، ليكن آپ نے جو اس سے مہر ليا ہے وہ آپ كے ليے حلال ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" رہا حرام كمائى سے حاصل كردہ مال مثلا جو دھوكہ و فراڈ سے حاصل كيا گيا ہو يا پھر سود سے يا جھوٹ بول كر حاصل كيا گيا ہو يا اس طرح كا كوئى اور غلط طريقہ كے ساتھ تو يہ كمانے والے كے ليےحرام ہے نہ كہ كسى دوسرے پر جو اسے كسى مباح اور جائز طريقہ سے كمائے؛ اس كى دليل يہ ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم يہوديوں كےساتھ لين دين كرتے تھے، حالانكہ وہ حرام كھاتے اور سود ليتے تھے، تو يہ اس كى دليل ہے كہ وہ حرام كمانے والے كے علاوہ كسى اور پر حرام نہيں " انتہى

ديكھيں: تفسير سورۃ البقرۃ ( 1 / 198 ).

حاصل يہ ہوا كہ: اس مال سے آپ كا مہر لينا آپ كے ليےمباح ہے اس ميں كوئى حرج نہيں.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب