جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

دوران نماز ٹيلى فون رسيو كرنا

8647

تاریخ اشاعت : 02-03-2007

مشاہدات : 8106

سوال

گھر ميں سب نماز ادا كر رہے تھے كہ ٹيلى فون كى گھنٹى بجنى شروع ہو گئى اور گھنٹى نے انہيں بہت دير تك مشغول كيے ركھا، تو كيا اس طرح كى حالت ميں دروازہ كھٹكٹھانے والے كے ليے دروزاہ كھولنے يا اس كے ليے آواز بلند كرنے پر قياس كرتے ہوئے دوران نماز آگے بڑھ كر ٹيلى فون كا ريسور اٹھا كر تكبير كہ سكتا ہے، يا اونچى آواز سے قرآت كرے تا كہ ٹيلى فون كرنے والے كو پتہ چل جائے كہ وہ نماز ادا كر رہا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اگر تو نمازى كى يہى حالت ہو جو سوال ميں بيان كى گئى ہے اور ٹيلى فون كى گھنٹى بجنے لگے تو اس كے ريسور اٹھانا جائز ہے، چاہے اس كے ليے كچھ آگے بھى جانا پڑے، يا اسى طرح پيچھے يا دائيں بائيں ليكن شرط يہ ہے كہ وہ قبلہ رخ ہى رہے، اور وہ ريسور ميں سبحان اللہ كہے تا كہ ٹيلى فون كرنے والے كو متنبہ كيا جا سكے.

اس كى دليل صحيحين كى مندرجہ ذيل حديث ہے:

" كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اپنى نواسى امامۃ كو اٹھا كر نماز پڑھائى اور جب ركوع كرتے تو اسے نيچے بٹھا ديتے اور جب كھڑے ہوتے تو اسے اٹھا ليتے"

اور مسلم كى روايت ميں ہے.

" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد ميں لوگوں كو نماز پڑھا رہے تھے"

اسے مالك رحمہ اللہ نے بيان كيا ہے ( 1 / 170 ).

ديكھيں: صحيح بخارى سترۃ المصلى باب اذا حمل جاريۃ صغيرۃ على عنقہ (1 / 487 ) اور صحيح مسلم المساجد باب جواز حمل الصبيان حديث نمبر ( 543 ) اور سنن ابو داود حديث نمبر ( 917 - 920 ) سنن نسائى ( 2 / 45 ).

اور امام احمد وغيرہ نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے بيان كيا ہے كہ:

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم گھر ميں نماز ادا كر رہے تھے اور دروازہ بند تھا تو ميں آئى اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم نے دروازہ كھولا اور واپس اپنى جگہ چلے گئے، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ دروازہ قبلہ كى جانب تھا"

مسند احمد ( 6 / 31 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 922 ) سنن نسائى ( 1 / 178 ) جامع ترمذى ( 2 / 497 ).

اور بخارى اور مسلم نے بيان كيا ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" نماز سے جسے كوئى چيز پيش آ جائے تو مرد سبحان اللہ كہيں اور عورتيں تالى بجائيں "

اللہ تعالى ہى توفيق بخشنے والا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.

ماخذ: ديكھيں: فتاوى اللجنۃ الدائمۃ للبحوث العلميۃ والافتاء ( 7 / 32 )