الحمد للہ.
"تبلیغی جماعت "اسلام کے لئے کام کرنے والی جماعتوں میں سے ایک ہے، اور دعوت الی اللہ کے لئے ان کی جدوجہد سے انکار نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ بھی ان جماعتوں میں سے ایک ہے جن سے غلطیاں سر زد ہوئی ہیں ،اور ان پر اعتراضات کیے گئے ہیں ۔
درج ذیل میں ہم ان اعتراضات کو بالاختصار بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کے ساتھ یہ بھی ملحوظ رہے کہ ان خامیوں کی تعداد میں اس بات کا بڑا عمل دخل ہے کہ جس علاقے کی یہ جماعت ہے اس کے ماحول اور معاشرے کے اعتبار سے یہ خامیاں مختلف ہوتی ہیں، چنانچہ جس معاشرے میں علم اور علماء موجود ہوں اور اہل سنت و الجماعت کے نظریات معروف ہوں تو ان کی غلطیاں کافی حد تک کم ہوتی ہیں، جبکہ اس کے علاوہ دیگر معاشروں میں کبھی ان غلطیوں کی تعداد بڑھ جاتی ہے ۔
چنانچہ ان کی چند ایک غلطیاں یہ ہیں:
1- ان کی بنیاد اہل سنت و الجماعت کے عقیدے پر نہیں ہے، یہ بات ان کے عام افراد بلکہ ان کے قائدین کے عقائد کے مختلف اور متعدد ہونے سے واضح ہے ۔
2- ان کے ہاں علم شرعی کا اہتمام نہیں ہے ۔
3- قرآنی آیات کی تاویل کرنا اور ان کے معانی مرادِ الہی سے ہٹ کر بیان کرنا، چنانچہ ان تاویلات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ جہاد والی آیات سے "دعوت کے لئے نکلنا" مراد لیتے ہیں۔
اسی طرح جن آیات میں لفظ "خروج" یا اس سے مشتق الفاظ[یعنی جن آیات میں اللہ کے راستے میں نکلنے کا حکم ہے ] وارد ہوئے ہیں، تو ان سے مراد وہ اللہ کے لئے دعوت دینے کے لئے نکلنا مراد لیتے ہیں[نہ کہ جہاد کے لئے نکلنا]
4- دعوت دینے کے لئے نکلنے کی جو[دنوں وغیرہ کی]ترتیب ان کے ہاں مقرر ہے یہ اس ترتیب کو عبادت سمجھتے ہیں، اور اس کے لئے وہ قرآنی آیات سے دلیل اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان آیات سے مقصود ان کے ہاں وہ دن اور مہینے ہیں، جوان کے ہاں مقرر ہیں ۔
بات صرف ترتیب مقرر کرنے کی ہی نہیں ہے بلکہ یہ ترتیب ان کے ہاں اس قدر مشہور اور معروف ہے کہ ماحول ،ملک اور لوگوں کے مختلف ہونے سے بھی یہ مقررہ تعداد مختلف نہیں ہوتی ۔
5- ان کی طرف سے بعض شرعی مخالفتوں کا سر زد ہونا مثلاً: جب جماعت دعوت کے لئے نکلے تو یہ ایک آدمی کو دعوت دینے کے لئے متکلم مقرر کرتے ہیں اور پھر اس داعی کی سچائی اور مقبولیت کو اپنی کامیابی اور ناکامی کا معیار ٹھہراتے ہیں ۔
6- ان کے ہاں ضعیف اور موضوع احادیث کا معروف ہیں ،اللہ کی طرف دعوت دینے کی ذمہ داری کا بیڑا اٹھانے والے کے لئے یہ قطعاً لائق نہیں ہے ۔
7- یہ لوگوں برائی کے بارے میں گفتگو نہیں کرتے ، ان کا خیال ہے کہ نیکی کی دعوت ہی کافی ہے ،یہی وجہ ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ عوام الناس میں پھیلی برائیوں پر گفتگو نہیں کرتے، حالانکہ اس امت کا شعار-جیسا کہ یہ لوگ بھی اس کو دہراتے رہتے ہیں -[یہ ہے جو کہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے]
وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
ترجمہ: تم سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہئے جو خیر و بھلائی کے کاموں کی طرف بلائے اور نیکی کی دعوت دے اور برائی سے روکے ، حقیقت میں یہی لوگ فلاح پائیں گے۔[آل عمران : 104]
چنانچہ کامیاب وہ ہیں جو نیکی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں ،نہ کہ وہ جو صرف ایک کام کریں [یعنی صرف نیکی کی دعوت دیں، اور برائی سے مت روکیں]
8- ان میں سے بعض لوگ غرور و تکبر میں مبتلا ہوتے ہیں، جو دوسرے لوگوں کو ان کی نظر میں حقیر اور گھٹیا بنا دیتا ہے ، بلکہ یہ عمل بسا اوقات اہل علم کے بارے میں زبان درازی اور ان کو سوئے ہوئے اور [دعوت سے غافل ہوکر گھروں میں] بیٹھے ہوئے جیسے الزامات دینے کی طرف لے جاتا ہے ۔
اور اس طرح یہ لوگ کا ریا کاری میں مبتلا ہو جاتے ہیں ،چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ وہ یہی بیان کرتے رہتے ہیں کہ وہ [تبلیغ کے لئے] گھر سے نکلا، اور سفر کیا، فلاں جگہ منتقل ہوا، اس نے فلاں چیز دیکھی اور اس کا مشاہدہ کیا، اور ان کی یہ عجب پسندی ایسے ہی دیگر کئی مذموم کاموں کی طرف لے جاتی ہے ۔
9- ان کے نزدیک دعوت کے لئے نکلنا بہت سی عبادات ، مثلاً: جہاد اور علم کے حصول سے بھی افضل ہے، حالانکہ جسے وہ ان عبادات پر فوقیت دیتے ہیں وہ ایسے واجبات میں سے ہے، یا ایسا فعل ہے جو کبھی صرف چند لوگوں پر واجب ہوتا ہے تمام لوگوں پر نہیں۔
10- ان میں سے بعض لوگ فتوی دینے یا تفسیر و حدیث بیان کرنے کی جرأت کرتے ہیں، چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ وہ لوگوں سے مخاطب ہونے اور وعظ و نصیحت کرنے کے لئے ایک آدمی مقرر کرتے ہیں، جوان لوگوں کو شرعی [احکام کے بارے میں ]جسارت کی طرف لے جاتا ہے، کیونکہ ان کی گفتگو احکام، حدیث اور آیات کی تشریح پر مشتمل ہوتی ہے، حالانکہ انہوں نے ان چیزوں کو نہ ہی پڑھا ہوتا ہے اور نہ ہی علماء سے سنا ہوتا ہے کہ اہل علم کے اقوال ہی ذکر کر سکیں۔
اور ان میں سے بعض تو نو مسلم ہوتے ہیں، یا پھر عہدِ قریب میں دین کی جانب راغب ہونے والوں میں سے ہوتے ہیں۔
11- ان میں سے بعض لوگ کا اپنے بیوی بچوں کی حق تلفی کرتے ہیں، اور اس معاملے کی سنگینی کا ذکر ہم نے سوال نمبر (3043) کے جواب میں کر دیا ہے ۔
انہی وجوہات کی بنا پر علماء ان کے ساتھ جانے سے منع کرتے ہیں، ہاں وہ لوگ جوان سے واقع ہونے والی غلطیوں کی اصلاح اور ان کو[علمی ] فائدہ پہنچانے کی غرض سے ان کے ساتھ جائیں تو یہ جائز ہے ۔
تاہم یہ مناسب نہیں ہے کہ ہم ان کی حیثیت کو کم کرتے ہوئے لوگوں کو ان کے ساتھ جانے سے بالکل ہی منع کر دیں، بلکہ ہمیں چاہیے کہ انکی اصلاح کی کوشش کرتے رہیں اور ان کو نصیحت کرتے رہیں تاکہ ان کی جد و جہد جاری رہے اور قرآن و حدیث کے مطابق درست ہو جائے ۔
یہاں تبلیغی جماعت کے بارے میں چند علماء کے فتاوی جات دیے جاتے ہیں ۔
1- شیخ عبد العزیزبن باز رحمہ اللہ کہتے ہیں:
"تبلیغی جماعت کے ہاں عقیدے سے متعلقہ مسائل میں درست فہم و بصیرت نہیں ہے، لہذا ان کے ساتھ جانا جائز نہیں ہے ،البتہ ایسا صاحب علم جو اہل سنت و الجماعت کے صحیح عقیدے سے مکمل واقفیت رکھتا ہے اور ان کی رہنمائی کرنے اور خیر کے کام میں تعاون کرنے کے لئے ان کے ساتھ جائے تو اس کے لئے ان کے ساتھ جانا جائز ہے ؛کیونکہ وہ اپنے کام میں بڑے سرگرم ہیں، لیکن انہیں مزید علم اور ایسے علمائے توحید و سنت کی ضرورت ہے جو ان کی صحیح رہنمائی کریں۔ اللہ سب کو دین کی صحیح سمجھ بوجھ اور اس پر ثابت قدمی عطا فرمائے ۔
"مجموع الفتاوی " از ابن باز(8/331)
2- شیخ صالح الفوزان کہتے ہیں :
"اللہ کے رستے میں نکلنے کا مطلب وہ نہیں جو یہ لوگ آج کل بیان کرتے ہیں، بلکہ اس کا مطلب جہاد کے لئے نکلنا ہے، جس [مخصوص فعل کو ]یہ لوگ اب "خروج فی سبیل اللہ" کہتے ہیں، یہ بدعت ہے اور سلف سے اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے ۔
انسان اگر اللہ کی طرف دعوت دینے کے لئے نکلے تو معین ایام کی تخصیص نہ کرے بلکہ بقدر وسعت و طاقت، اللہ کی طرف دعوت دے، کسی جماعت یا دنوں کو مثلاً: چالیس دن یا اس سے کم یا اس سے زیادہ کی تخصیص نہ کرے۔
اسی طرح داعی کی ذمہ داری ہے کہ وہ صاحب علم ہو، کوئی جاہل شخص اللہ کی طرف دعوت نہ دے [کیونکہ اسے خود دین کی صحیح معرفت نہیں ہے البتہ جس مسئلہ کے بارے میں صحیح طور پر علم ہو اسے دوسروں کو بتایا جا سکتا ہے]
فرمانِ باری تعالی ہے:
قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ ترجمہ: کہ دیجئے کہ یہ میرا راستہ ہے، میں بصیرت کے ساتھ اللہ کی طرف بلاتا ہوں " [يوسف : 108]
"بصیرت" یعنی علم کے ساتھ، کیونکہ داعی جس واجب، مستحب کی دعوت دے، یا بصورتِ دیگر حرام و مکروہ سے روکے ، تو اسے اس کے بارے میں علم ہونا چاہیے اسی طرح اسے معلوم ہونا چاہیے کہ شرک، معصیت ،کفر اور فسق کیا چیزیں ہیں، اور انکار کے درجات اور اس کی کیفیت کے بارے میں معرفت ہونی چاہیے ۔
اور اگر تبلیغ کیلئے جانے سے علم کے حصول میں رکاوٹ پیدا ہو تو تبلیغ کیلئے جانا ہی درست نہیں ہے ؛کیونکہ علم کا حصول فرض ہے جو سیکھنے سے حاصل ہوتا ہے نہ کہ الہام سے، [حصولِ علم کیلئے یہ تصور قائم کرنا کہ یہ الہام سے بھی آتا ہے ]یہ گمراہ صوفیوں کی خرافات میں سے ہے، [تبلیغ حصولِ علم کیلئے رکاوٹ بنے، تو تبلیغ ناجائز اس لیے ہے کہ ]علم کے بغیر عمل گمراہی ہے، اور سیکھنے کے بغیر علم کی توقع کرنا ، بالکل غلط اور باطل خیال ہے ۔
یہ عبارت کتاب "ثلاث محاضرات فی العلم و الدعوۃ " سے لی گئی ہے ۔
واللہ اعلم.