اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

ایک لڑکی کو نماز میں جنسی خیالات آتے ہیں۔

سوال

ایک عورت کو نماز میں وسوسے آتے ہیں اور ہمیشہ نماز کے دوران جنسی امور میں گم رہتی ہے، تو ان وسوسوں سے کیسے چھٹکارا پائے؟ اور کیا ہر بار اپنی نماز توڑ دیا کرے؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

وسوسہ بیماری کی ایک قسم ہے جو کہ شیطان کے انسان پر حاوی ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، یا پھر نفس امارہ کا جب غلبہ ہو تب وسوسے آتے ہیں، اس لیے وسوسوں کا علاج ایمان کو قوی بنانے سے ہو گا، نیز شیطان کے راستوں کو کمزور بنانے سے علاج میں مدد ملے گی، آپ کثرت کے ساتھ نیکیاں کریں، اللہ تعالی کی جانب رجوع کریں، زیادہ سے زیادہ ذکر، تسبیح، اور استغفار کریں، نمازکی طرف لوٹیں اور اللہ کے سامنےگڑگڑائیں اللہ تعالی  آپ کی دعاؤں کو قبول فرمائے گا ؛ اللہ تعالی تو بندے پر بندے سے بھی زیادہ رحم کرنے والا ہے، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

(أَمْ مَنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَا تَذَكَّرُونَ)
ترجمہ: بھلا کون ہے جو لاچار کی فریاد رسی کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف کو دور کر دیتا ہے اور (کون ہے جو) تمہیں زمین کے جانشین بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور الٰہ ہے ؟ تم لوگ تھوڑا ہی غور کرتے ہو۔ [النمل:62]

ایسے ہی ایک اور مقام پر فرمایا:
 ( وَأَيُّوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرٍّ )
ترجمہ: ایوب (علیہ السلام) کی اس حالت کو یاد کرو جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔  [84] تو ہم نے اس کی سن لی اور جو دکھ انہیں تھا اسے دور کر دیا ۔ [ الأنبياء:83، 84]

وسوسوں کی بیماری میں مبتلا آپ بہت سے لوگوں کو دیکھیں گے کہ وہ صبح اور شام کے اذکار میں سستی کا شکار ہوتے ہیں، وہ سوتے وقت، گھر سے باہر جاتے اور واپس آتے وقت، کھانے پینے کے اوقات میں شرعی اذکار کا اہتمام نہیں کرتے، اس طرح شیطان ان پر مزید حاوی ہو جاتا ہے، شیطان انسان کو برے خیالات اور تصورات میں جکڑ دیتا ہے، تا کہ انسان زیادہ سے زیادہ ذہنی تناؤ کا شکار ہو اور تکلیف میں رہے۔

دوم:

وسوسوں کے علاج کیلیے  مفید ترین ذریعہ یہ ہے کہ جب بھی وسوسہ آئے تو وسوسہ بالکل ختم ہو جانے تک اپنا ذہن کسی اور جانب متوجہ کر دے، ابن حجر مکی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ: کیا وسوسوں کے علاج کیلیے کوئی دوا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
"اس کی ایک بہترین دوا ہے وہ یہ ہے کہ آپ وسوسے سے ذہن کو مکمل طور پر کسی اور جانب مصروف کر دیں، چاہے دل میں کچھ بھی خیالات آئیں؛ کیونکہ جب انسان وسوسوں کی جانب توجہ نہیں کرتا تو وسوسے کو ذہن میں قدم جمانے کا موقع نہیں ملتا، بلکہ کچھ ہی دیر میں وسوسہ ہوا ہو جاتا ہے، یہ بہت ہی مجرب نسخہ ہے، بہت سے لوگ اس کو اپنا کر کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص وسوسوں کے پیچھے لگ جائے اور وسوسوں کے مطابق عمل کرنے لگے تو پھر  وسوسے تسلسل کے ساتھ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور انسان کو پاگل بنا دیتے ہیں، بلکہ پاگلوں سے برا حشر کر دیتے ہیں، ہم نے وسوسوں میں ملوث بہت سے لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب وہ وسوسوں کے پیچھے لگے  اور ان وسوسوں پر کان دھرے تو وسوسوں نے انہیں شیطان تک پہنچا دیا" ختم شد
"الفتاوى الفقهية الكبرى" (1/149)

سوم:

اگر کوئی وسوسوں کی بیماری میں مبتلا ہے تو اسے یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اسے ذہن میں آنے والے خیالات کی وجہ سے باز پرس کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا چاہے خیالات کتنے ہی گندے کیوں نہ ہوں، چاہے یہ خیالات نماز میں آئیں یا عام حالت میں، بشرطیکہ انسان ایسے خیالات سے نفرت کرے ،ان کو ختم کرنا چاہتا ہو، اور ان سے اپنا پیچھا چھڑانا چاہتا ہو، اس کی دلیل صحیح مسلم: (132) میں ہے کہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے کچھ صحابہ کرام آئے اور آپ سے پوچھا کہ ہمیں ہمارے دلوں میں ایسے تصورات اور خیالات آتے ہیں جو ہم میں  سے کوئی بھی اپنی زبان پر نہیں لا سکتا؟" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: (کیا اسے بیان کرنے سے ناگواری تم نے اپنے دل میں پا لی ہے؟) انہوں نے کہا: "جی ہاں" تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہی صریح ایمان ہے)

یعنی اس بات کو زبان پر نہ لانے کی سکت  تمہارے دلوں میں ایمان کی علامت ہے۔

اسی طرح شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
"بسا اوقات انسان کے دماغ میں وسوسے اور افکار آتے رہتے ہیں، خصوصاً عقیدہ توحید اور ایمان سے متعلق تو کیا مسلمان کا ان افکار پر بھی مواخذہ ہو گا؟"

اس پر انہوں نے جواب دیا کہ:
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے صحیح بخاری اور مسلم وغیرہ میں ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (بیشک اللہ تعالی نے میری امت کیلیے دل میں آنے والے خیالات کو معاف کر دیا ہے، جب تک ان پر عمل نہ کیا جائے یا انہیں زبان پر نہ لایا جائے) متفق علیہ

اور صحابہ کرام سے یہ بھی ثابت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے اپنے دلوں میں آنے والے وسوسوں کے بارے میں پوچھا ، جن میں سوال میں مذکور امور بھی تھے  تو انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (یہی صریح ایمان ہے) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا یہ بھی فرمان ہے کہ: (لوگ سوالات کرتے ہوئے بڑھتے چلے جائیں گے یہاں تک کہ کہا جائے گا: یہ تو اللہ کی پیدا کردہ مخلوق ہے تو  اللہ کو کس نے پیدا کیا ہے؟ چنانچہ اگر کسی کے دل میں یہ بات آئے تو کہہ دے: میں اللہ  اور اس کے رسولوں پر ایمان لایا) متفق علیہ

ایک اور روایت میں کچھ یوں الفاظ ہیں کہ: (اللہ سے پناہ مانگے اور ایسے سوالات  کو ذہن سے جھٹک دے) اس حدیث کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔" ختم شد
"تحفة الإخوان بأجوبة مهمة تتعلق بأركان الإسلام " سوال نمبر: 10

چنانچہ اگر معاملہ ایسا ہی ہے تو پھر شیطان  کے وسوسوں کے پیچھے لگ کر عبادت مت ترک کریں کہ ذہن میں حرام امور کے متعلق خیالات آتے ہیں تو اس لیے نماز ہی چھوڑ دی جائے، یہ غلط ہوگا، بلکہ  آپ اپنی نماز جاری رکھیں، چاہے آپ کے ذہن میں کسی بھی قسم کا خیال آئے، آپ اپنی نماز جاری رکھیں آپ کو دوبارہ دہرانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ تاہم دوران نماز ایسے خیالات کو جھٹکتا رہے، ان شاء اللہ یہ خیالات ختم ہو جائیں گے۔

مزید کیلیے آپ سوال نمبر: (25778) کا مطالعہ کریں۔

ہم اس بات کی طرف بھی توجہ دلانا چاہیں گے کہ آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ کسی بھی ایسے کام سے باز رہیں جن کی وجہ سے ایسے خیالات پیدا ہوتے ہیں، مثلاً: اگر آپ حیا باختہ فلمیں دیکھتی ہیں، یا تصویریں دیکھتی ہیں جو ذہن میں رچ بس جاتی ہیں اور پھر اپنا کام دکھاتی ہیں۔

اگر آپ ایسی کسی چیز میں مبتلا ہیں ، اور آپ انہیں ناپسند بھی کرتی ہیں،  یا دل میں تھوڑ ی بہت خاوند کی ضرورت اور رغبت  بھی ہے تو اگر نماز کا وقت ادا کرنے میں ابھی فرصت ہے تو پھر پہلے اپنے خاوند کے ذریعے ضرورت پوری کر لیں، اور بعد میں نماز ادا کریں۔

سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : "انسان کی دانشمندی کی علامت ہے کہ  اپنی ضروریات پوری کرے تا کہ نماز میں دھیان اچھی طرح رہے اور دل بھی مکمل طور پر نماز کیلیے فارغ ہو " اس اثر کو مروزی نے تعظيم قدر الصلاة (134) میں روایت کیا ہے اور امام بخاری نے اسے اپنی صحیح بخاری میں  معلق طور پر ذکر کیا ہے۔

ہم اللہ تعالی سے اپنے لیے اور آپ کیلیے عمل کی توفیق اور راہ راست  کے دعا گو ہیں۔

واللہ اعلم

ماخذ: الاسلام سوال و جواب