اتوار 21 جمادی ثانیہ 1446 - 22 دسمبر 2024
اردو

انشورنس كى حقيقت اور اس كا حكم

سوال

دور حاضر ميں پائى جانے والى تجارتى انشورنس كا حكم كيا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

1 - بلا كسى شك و شبہ ہر قسم كى تجارتى انشورنس واضح اور صريح سود ہے، يہ رقم كى كم يا زيادہ رقم كے ساتھ بيع ہے، اور اس ميں دونوں رقموں ميں سے ايك ادھار بھى ہے، لہذا اس ميں رباالفضل اور ربا النسيئۃ دنوں سود كى قسميں پائى جاتى ہيں.

اس ليے كہ انشورنس والے لوگوں سے رقم وصول كرليتے ہيں، اور حادثہ پيش آجانے كى صورت ميں انشورنس كرانے والے شخص سے كم يا زيادہ رقم دينے كا وعدہ كرتے ہيں، اور يہ ہى سود ہے، اور قرآنى نص كے ساتھ بہت سارى آيات ميں سود كى حرمت ثابت ہوتى ہے.

2 - تجارتى انشورنس كى سب اقسام كا دار ومدار جوے پر ہے، جوے كے بغير قائم ہى نہيں ہو سكتى، اور يہ نص قرآنى كے ساتھ حرام ہے.

فرمان بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو! بات يہى ہے كہ شراب اور جوا اور درگاہيں اور فال نكالنے كے پانسے كے تير يہ سب گندى باتيں اور شيطانى كام ہيں، ان سے بالكل الگ تھلگ رہو اور اجتناب كرو تا كہ تم كامياب ہو جاؤالمائدۃ ( 90)

لہذا انشورنس كى سب صورتيں نصيب اور حصوں كے ساتھ كھيل ہے، انشورنس والے كہتے ہيں كہ اتنى رقم ادا كرو اور اگر تمہارے ساتھ ايسا واقعہ ہوا تو ہم اتنى رقم ادا كرينگے، اور يہ بالكل جوا ہے، انشورنس اور جوے كے مابين فرق كرنا ايسى مخالفت ہے جسے عقل سليم قبول ہى نہيں كرتى، بلكہ انشورنس والے تو خود يہ تسليم كرتے ہيں كہ انشورنس جوا ہے.

3 - تجارتى انشورنس كى سب اقسام دھوكہ و فراڈ ہيں، اور بہت سى احاديث كى رو سے دھوكہ و فراڈ حرام ہے.

ان احاديث ميں ابوھريرہ رضى اللہ تعالى عنہ كى حديث بھى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے بيع الحصاۃ اور دھوكہ كى بيع منع فرمائى" امام مسلم نے اسے صحيح مسلم ميں روايت كيا ہے.

تجارتى انشورنس كى سب اقسام كا اعتماد دھوكہ و فراڈ پر ہے، بلكہ فحش قسم كے دھوكہ پر مبنى ہے، لہذا انشورنس كى سب كمپنياں اور ہر انشورنس كى تجارت كرنے والا كسى غير احتمالى خطرہ كى انشورنس كروانے سے منع كرتا ہے.

يعنى خطرے كے وقوع اور عدم وقوع كا احتمال ضرور ہو تا كہ وہ انشورنس كے قابل ہو سكے، اور اسى طرح وقوع كا وقت اور اس كى مقدار كا علم بھى روكا جاتا ہے، تو اس طرح اس انشورنس ميں تين قسم كا واضح اور فحش دھوكہ جمع ہے.

4 - تجارتى انشورنس كى سب صورتيں باطل طريقہ سے لوگوں كا مال ہڑپ كرنا ہے، اور يہ قرآنى نص سے حرام ہے.

ارشاد بارى تعالى ہے:

اے ايمان والو! تم آپس ميں اپنا مال باطل طريقہ سے نہ كھايا كرو

لہذا تجارتى انشورنس كى سب انواع اور صورتيں باطل طريقہ سے لوگوں كا مال ہڑپ كرنے كا ايك طريقہ اور حيلہ ہے، جرمنى كے ماہر شخص كے دقيق اعداد و شمار نے يہ ثابت كيا ہے كہ لوگوں كو دى جانے والى رقم جمع كردہ رقم كا 2.9 % فيصد بھى نہيں بنتى.

لہذا انشورنس امت كے ليے ايك عظيم خسارہ اور نقصان ہے، كفار كا فعل حجت نہيں جو انشورنس كو موت كى طرح ناپسند كرنے كے باوجود انشورنس كروانے پر بہت زيادہ مجبور ہو چكے ہيں.

يہ تو شريعت كى عظيم مخالفات كا ايك پہلو ہے جن كے بغير انشورنس قائم ہى نہيں رہ سكتى، ليكن بہت سى دوسرى مخالفات ايسى بھى ہيں جن كے ليے يہ مقام كافى نہيں، اور ان كے ذكر كرنے كى بھى كوئى ضرورت نہيں، كيونكہ اوپر جس ايك مخالفت كا ذكر كيا جا چكا ہے اسے اللہ تعالى كى شريعت ميں عظيم منكرات اور حرام كردہ اشياء ميں شامل كرنے كے ليے وہى كافى ہے.

افسوس تو اس بات پر ہے كہ بعض لوگ انشورنس كمپنيوں كے ايجنٹوں كى چكنى چپڑى باتوں سے دھوكہ ميں آجاتے ہيں مثلا اسے تعاونى يا تكافلى اور اسلامى انشورنس كا نام ديتے ہيں، يا اس طرح كے اور ناموں سے موسوم كرتے ہيں، حالانكہ يہ نام اس كى باطل حقيقت سے كچھ بھى بدل نہيں سكتے.

اور انشورنس كى داعى ايجنٹ حضرات كا يہ دعوى كرنا كہ علماء كرام نے تعاونى انشورنس كے نام سے موسوم انشورنس كے حلال ہونے كا فتوى ديا ہے، يہ كذب بيانى اور بہتان ترازى ہے، اور اس ميں خلط ملط ہونے كا سبب يہ ہے كہ انشورنس كى دعوت دينے والے بعض ايجنٹوں نے علماء كرام كو ايك كھوٹى اور ناقص قسم كى درخواست دى جس كا انشورنس كى اقسام و انواع كے ساتھ سرے سے كوئى تعلق ہى نہيں، اور انہوں نے كہا كہ يہ انشورنس كى ايك قسم اور ( اس كى تزيين اور لوگوں پر خلط ملط كرنے كے ليے ) اسے تعاونى انشورنس كے نام سے موسوم كرديا، اور كہنے لگے كہ:

يہ خالص لوگوں كے تعاون اور فنڈ ميں سے ہے، اور يہ اس تعاون ميں سے ہے جس كا اللہ تعالى نے مندرجہ ذيل فرمان ميں حكم ديا ہے:

فرمان بارى تعالى ہے:

اور تم نيكى و بھلائى كے كاموں ميں ايك دوسرے كاتعاون كرتے رہا كرو

اور اس كا مقصد لوگوں كو پہنچنے والے خطرات اور تكاليف ميں تعاون كرنا، صحيح يہى ہے كہ جسے وہ تعاونى انشورنس كا نام ديتے ہيں وہ بھى انشورنس كى دوسرى اقسام كى طرح ہى ہے، اختلاف صرف شكل اور كيفيت ميں ہے ليكن حقيقت اورجوہر ميں كوئى فرق نہيں، يہ خالصتا فنڈ اور تعاون سے بہت زيادہ دور ہے اس سے كے ساتھ تو دور كا تعلق نہيں پايا جاتا، اور نيكى و بھلائى كے كاموں ميں تعاون سے بھى بہت بعيد ہے دور كا بھى تعلق نہيں ركھتى، بلكہ بلا كسى شك و شبہ يہ تو برائى معصيت اور ظلم و زيادتى ميں تعاون ہے, اس كا مقصد لوگوں كى تكليف اور مصائب ميں تخفيف اور اصلاح نہيں، بلكہ اس كا مقصد لوگوں كا ناحق اور باطل طريقہ سے مال ہڑپ كرنا ہے، لہذا يہ بھى قطعى طور پر انشورنس كى دوسرى اقسام كى طرح حرام ہے، اس ليے انہوں نے جو كچھ علماء كے سامنے پيش كيا ہے وہ انشورنس كى اصل كو ختم نہيں كرتى.

اور بعض جو يہ دعوى كرتے ہيں كہ جمع كردہ رقم كا كچھ حصہ واپس كر ديا جاتا ہے، تو يہ كسى بھى چيز كو تبديل نہيں كرتا، اور نہ ہى انشورنس كو سود اور جوے اور دھوكہ و فراڈ اور لوگوں كے مال كو ناحق اور باطل طريقہ سے ہڑپ كرنے سے بچاتا ہے، اور نہ ہى اسے اللہ تعالى پر توكل كے منافى ہونے سے بھى محفوظ نہيں كرتا، اور اسى طرح دوسرى حرام كردہ سے بھى، بلكہ يہ تو دھوكہ و فراڈ اور تلبيس ہے، جو مزيد تفصيل چاہتا ہے وہ ( انشورنس اور اس كے احكام ) كا مطالعہ كرے.

ميں ہر دينى غيرت ركھنے والے اور اللہ تعالى اور آخرت كے دن كى ملاقات كى اميد ركھنے والے مسلمان كو دعوت ديتا ہوں كہ وہ اپنے آپ كے بارہ ميں اللہ تعالى سے ڈرے اور اس كا تقوى اختيار كرے، اور انشورنس سے اجتناب كرے چاہے وہ جس طرح كے بھى برات كے حلے زيب تن كرے اور زرق برق لباس پہنا كر انشورنس كو پاك كرنے كى كوشش كى گئى ہو وہ پھر بھى بلاشك وشبہ حرام اور سحت ہى ہے، وہ اس سے اپنے دين اور مال كى بھى حفاظت كر سكتا ہے، اور امن و امان كے مالك اللہ سبحانہ وتعالى سے امن كى نعمت بھى حاصل كرسكتا ہے.

اللہ تعالى مجھے اور آپ كو دينى بصيرت سے نوازے، اور اللہ رب العالمين كو راضى كرنے والے اعمال كرنے كى توفيق عطا فرمائے.

ماخذ: ديكھيں: خلاصۃ فى حكم التامين تاليف: ڈاكٹر سليمان بن ابراہيم الثنيان ممبر ٹيچنگ كميٹى شريعت كالج قصيم