سوموار 4 ربیع الثانی 1446 - 7 اکتوبر 2024
اردو

کمیٹیوں کا نظام

8995

تاریخ اشاعت : 16-12-2003

مشاہدات : 4537

سوال

مجھے ایک ثقہ دوست نے کہا ہے کہ شیخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی نے اپنے ایک درس میں کہا ہے کہ کمیٹیوں کا نظام شرعا حرام ہے ،مجھے انشاء اللہ اس کی بات پر وثوق ہے ، لیکن پھر بھی آپ بتائيں کہ اس قول کی حقیقت کیا ہے ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.


شيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی سے کمیٹیوں کےجواز کا قول معروف ومشہور ہے ، لیکن اس میں بعض علماء کرام نے مخالفت کرتے ہوئے اسے حرام قرار دیا ہے ان میں شيخ صالح الفوزان شامل ہيں انہوں نے اپنی کتاب " البیان لاخطاء بعض الکتاب " صفحہ ( 377 - 380 ) میں اسےحرام قرار دیا ہے ۔

کبارعلماء کرام کی مجلس نے ان کمیٹیوں کے حکم کے بارہ میں ایک فیصلہ اور فتوی بھی صادر کیا ہے جو ذيل میں بالنص درج کیا جاتا ہے :

سب تعریفات اس اللہ رب العالمین کے لیے ہیں اوراوردرود وسلام ہوں نبی مکرم و امین اور مخلوق سے بہتر انسان محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اورقیامت تک ان کی اتباع کرنے والوں پر ۔

اما بعد :

کبارعلماء کرام کی مجلس نے طائف میں ہونے والے اپنے چوتیسویں اجلاس میں کچھ سوالات پر غورو خوض کیا اجلاس 16/ 2 / 1410 سے 26 / 2 / 1410ھجری تک جاری رہا ۔

کچھ ملازمین اورٹیچرحضرات کی جانب سے دعوت وارشاد اورعلمی ریسرچ ادارہ کے رئیس صاحب کوسوال پیش کیا گیا اورانہوں نے مجلس کے سامنے یہ سوال رکھا کہ :

ملازمین آپس میں ایک کمیٹی ڈالتے ہیں اس کا حکم کیا ہے ؟ اس کیمٹی کی صورت یہ ہے کہ : کسی ایک ہی دفتر یا سکول وغیرہ ميں کچھ ملازمین کا آپس میں متفق ہوکر مہینہ کے آخر میں تنخواہ سے کچھ رقم مساوی طور پر اکٹھی کرنا اوریہ رقم ان کیمٹی ممبران میں سے کسی ایک ممبرکوادا کردینا ، اسی طرح ہرماہ سب کمیٹی ممبران سے رقم اکٹھی کرکے ایک ممبر کوادا کی جاتی ہے حتی کہ سب ممبران اتنی ہی رقم حاصل کرتے ہیں جتنی وہ تھوڑی تھوڑی کرکے جمع کرواتے ہیں اس میں کوئي کمی یا زيادتی نہيں ہوتی ۔

اوراسی طرح شیخ عبداللہ بن سلیمان المنیع کے پیش کردہ مقالے کوبھی دیکھا گیا جس میں قرض پرنفع حاصل کرنے کا حکم بیان کیا گيا ہے ، اسے دیکھنے کے بعد اراکین مجلس میں بحث وتمحیث جاری رہی جس کے بعد مجلس کے اکثر ارکان کے لیے کوئي ایسی چيز ظاہرنہ ہوئي جواس طرح کے معاملے کومنع کرنے والی ہو ۔

اس لیے کہ قرض لینے والے کوہونے والی منفعت قرض دینے والے کے مال میں کچھ بھی کمی نہيں کررہی ، بلکہ قرض لینے اور دینے والے ( یعنی کمیٹی کے سب ممبران کو ) برابر کا نفع حاصل ہورہا ہے ، اوریہ نفع ان سب کے لیے ہے کسی ایک ممبر کوبھی اس میں نقصان نہيں اور نہ ہی کسی دوسرے سے زيادہ نفع حاصل ہورہا ہے ۔

اورشریعت مطہرہ اسی مصلحتوں اورمنفعتوں کورد نہيں کرتی جس میں کسی ایک پر بھی نقصان و ضرر نہ ہو بلکہ اسی چيزکی مشروعیت وارد ہے ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ، اللہ تعالی ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اوران کی آل اورصحابہ کرام پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے ۔

مجلس کبار علماء ۔

دیکھیں : مجلۃ البحوث الاسلاميۃ عدد ( 27 ) صفحہ ( 349 - 350 ) ۔

اورشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی کا بھی ان کمیٹیوں کے بارہ میں فتوی ہے جس میں انہوں نے اسے مباح وجائز قرار دیا ہے ، ان سے جب اس کے حکم کے بارہ میں پوچھا گيا تو ان کا جواب تھا :

اس میں کوئي حرج نہيں ، یہ ایک ایسا قرض ہے جس میں کسی ایک کے لیے بھی زيادہ نفع کی شرط نہيں پائي جاتی ، اوراس مسئلہ میں مجلس کبارعلماء کرام نے بھی غورخوض کیا اوراکثریت کے ساتھ اس کے جواز کا فیصلہ کیا اس لیے کہ اس میں سب کی مصلحت ہے اورکسی ایک کا بھی نقصان نہيں ۔

اللہ تعالی ہی توفیق بخشنے والا ہے ۔

دیکھیں : فتاوی اسلامیۃ ( 2 / 413 ) ۔

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب