الحمد للہ.
زیادہ تیز رفتاری کوئی اچھی چیز نہیں ہے، کیونکہ تیز رفتاری کی وجہ سے حادثات اور نقصانات ہوتے ہیں، اس لیے اہل علم تیز رفتاری کے بارے میں بہت سخت موقف رکھتے ہیں، چنانچہ اگر ڈرائیور مقررہ حد رفتار سے تجاوز کرتا ہے تو یہ ڈرائیور کی طرف سے غلطی شمار ہو گی، چنانچہ کسی بھی قسم کے جانی یا مالی نقصان کا مکمل ذمہ دار ہو گا، اور ٹریفک حادثے میں قتل ہونے والے شخص کو قتل خطا کے تحت شمار کیا جائے گا لہذا تیز رفتار گاڑی چلانے والے پر دیت اور کفارہ دونوں لازم ہیں۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے پوچھا گیا:
ایک شخص تیز رفتاری کی وجہ سے گاڑی کے حادثے میں فوت ہو گیا تو کیا اسے خود کشی شمار کیا جائے گا؟
تو انہوں نے جواب دیا:
"نہیں یہ خود کشی نہیں ہے، تاہم یہ اپنے آپ کے قتل خطا کا مرتکب ہوا ہے، چنانچہ اگر اس ٹریفک حادثے کا سبب تیز رفتاری بنی ہے تو پھر اس نے قتل خطا کیا ہے۔ لیکن یہ خود کشی نہیں ہے؛ کیونکہ اس سے اگر یہ پوچھا جائے کہ : کیا تم نے مرنے کے لیے تیز رفتار سے گاڑی چلائی تھی؟ تو وہ جواب یہی دے گا کہ: نہیں۔ اس لیے یہ خود کشی نہیں ہے، لیکن یہ ضرور کہا جائے گا کہ: اس نے معصوم جان کو خطاً قتل کیا ہے۔" ختم شد
"لقاء الباب المفتوح" (73/19)
دوم:
کسی مریض یا زخمی کو اسپتال تک پہنچانا بہت اچھا عمل ہے، اس پر اجر و ثواب بھی ملے گا ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تیز رفتاری کے ذریعے ، یا ٹریفک اشاروں کو توڑتے ہوئے اپنے آپ کو یا مریض کو نقصان پہنچائے، اس سے ممکن ہے کہ کوئی ایسا کام بھی ہو جائے جس سے اسپتال تک پہنچنے میں مزید دیر ہو جائے۔
اگر کوئی شخص تیز رفتاری کی وجہ سے فوت ہو جائے تو ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ ان کی اچھی نیت پر انہیں اجر بھی دے اور معاف بھی کرے، تاہم اس عمل کو خود کشی شمار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اس نے اپنے آپ کو مارنے کا ارادہ نہیں کیا ، کیونکہ اس کا ارادہ تو یہ تھا کہ مریض کو جلد از جلد ہسپتال میں پہنچائے۔
واللہ اعلم