الحمد للہ.
جب آپ كا اتفاق اور معاہدہ محدود گھنٹوں ميں كام كرنے كا ہے، اور آپ سے وقت لكھنے اور مدون كرنے كا مطالبہ بھى ہے تو پھر آپ پر اسے پورا كرنا لازم ہے، يا پھر آپ وہ حقيقى وقت لكھيں جتنا آپ نے كام كيا ہے.
نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
مسلمان اپنى شرطوں پر قائم رہتے ہيں "
سنن ترمذى حديث نمبر ( 1352 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 3594 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.
اور آپ نے جو عذر بيان كيے ہيں كہ ڈرائيور كو مال كى ضرورت ہے، يا پھر آپ مطلوبہ كام كم وقت ميں مكمل كر ليتى ہيں، يا دوسرى معلمات وقت ضائع كرتى ہيں جس سے كام كو كوئى فائدہ نہيں ہوتا، يا آپ كى اولاد ہے اور آپ كى اور بھى ذمہ دارياں ہيں....
يہ سب كچھ آپ كے ليے نہ تو جھوٹ كو مباح كرتے ہيں، اور نہ ہى امانت ميں خيانت كو، كيونكہ آپ گھنٹوں ميں كام كرنے امانتدار ہيں، اور يہ بھى امانت ہے كہ آپ وہ وقت لكھيں.
اب آپ كے سامنے دو راستے ہيں:
پہلا:
آپ محكمہ كو حقيقت حال كا بتائيں، كہ آپ مطلوبہ كام مقرر كردہ وقت سے قبل مكمل كر ليتى ہيں، پھر جس پر آپ كا اتفاق ہو جائے اس كے مطابق آپ كام كريں.
دوسرا:
آپ جتنا كام كريں اتنے گھنٹے ہى لكھيں، اور اس ميں كوئى زيادتى نہ كريں، تا كہ آپ وہ مال نہ حاصل كريں جس كا آپ حق نہيں ركھتيں.
اور اس سے قبل آپ نے جو تنخواہ وصول كى ہے اگر تو ممكن ہو تو آپ وہ ادارہ تعليم كو واپس كريں، ليكن اگر ايسا ممكن نہيں تو پھر آپ مستقبل كى تنخواہ سے اتنى كٹوتى كروا ليا كريں.
اللہ تعالى سے ہمارى دعا ہے كہ وہ ہميں اور آپ كو سيدھى راہ كى توفيق نصيب فرمائے.
واللہ اعلم .