الحمد للہ.
اول:
بلاشك و شبہ آپ نے طلاق كے الفاظ بول كر بہت بڑى غلطى كى ہے، آپ كو چاہيے تھا كہ آپ تحمل سے كام ليتے اور جلد بازى نہ كرتے، اور اپنى بات چيت ميں طلاق كے الفاظ سے اجتناب كرتے، اور خاص كر غصہ كى حالت ميں.
دوم:
اگر معاملہ وہى ہے جو آپ نے بيان كيا ہے كہ آپ نے كہا: ( اگر ميرى بيوى نے آپ كى بيوى كو يہ بات كہى ہے تو اسے تين طلاقيں ) اور آپ كا اس كلام سے مقصد يہ تھا كہ: اگر آپ كى بيوى نے آپ كے دوست اور اس كى بيوى كے درميان عليحدگى كے ارادہ سے يہ بات كہى ہو.
ليكن حالت يہ ہے كہ آپ كى بيوى كا يہ مقصد نہ تھا، تو اس سے طلاق واقع نہيں ہوئى؛ كيونكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" ہر شخص كے ليے وہى ہے جو اس كى نيت تھى "
صحيح بخارى حديث نمبر ( 1 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 1907 ).
اس ليے جس شخص نے بھى عام الفاظ ميں طلاق بولى اور اسے نيت كے ساتھ خاص كيا تو يہ قابل قبول ہوگا، جب تك اس كى بيوى معاملہ شرعى عدالت ميں پيش نہ كرے، اور قاضى كے سامنے اس كى نيت كو قبول كرنے ميں علماء كرام كا اختلاف ہے.
مثلا اگر كسى شخص نے طلاق كى قسم اٹھاتے ہوئے كہا بيوى گھر ميں داخل نہ ہو، پھر اس نے دعوى كيا كہ اس نے ايك ماہ كى نيت كى تھى، تو اسے ايك ماہ كے ساتھ مقيد كرنے كى نيت قبول كى جائيگى.
ابن قدامہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:
" امام احمد رحمہ اللہ نے كہا ہے كہ: جو شخص قسم اٹھائے كہ گھر ميں داخل نہ ہو، اور كہے ميں نے اس سے ايك ماہ كى نيت كى تھى، اس كا قول قبول كيا جائيگا " انتہى
ديكھيں: المغنى ( 7 / 320 ).
تو يہاں نيت نے الفاظ كو مقيد كر ديا ہے، اور ہر انسان اپنى نيت خود جانتا ہے، اور اللہ سبحانہ و تعالى اس پر مطلع ہے اس پر كوئى بھى چيز خفيہ نہيں رہتى.
واللہ اعلم .