جمعرات 18 رمضان 1445 - 28 مارچ 2024
اردو

ہمارى شريعت ميں دبر ( پاخانہ والى جگہ ) ميں وطئ كرنا جائز نہيں

91968

تاریخ اشاعت : 26-12-2011

مشاہدات : 14408

سوال

بخارى شريف كى حديث نمبر ( 4170 ) اور ( 4171 ) ميں وارد ہے كہ دبر ميں وطئ كرنا حلال ہے، اور آپ كى ويب سائٹ پر بيان كيا گيا ہے كہ ايسا كرنا حرام ہے، برائے مہربانى اس سلسلہ ميں صحيح كيا ہے اسے سمجھنے ميں ميرا تعاون فرمائيں ؟

جواب کا متن

الحمد للہ.

اول:

دبر ميں وطئ كرنے كى حرمت ميں بہت سارى صحيح احاديث وارد ہيں، ان احاديث ميں سے چند ايك درج ذيل ہيں:

1 ـ ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جو شخص اپنى بيوى كى دبر ميں وطئ كرتا ہے تو وہ محمد صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل كردہ سے برى ہوگيا "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 3904 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

2 ـ ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اللہ سبحانہ و تعالى اس شخص كى طرف ديكھے گا بھى نہيں جس نے اپنى بيوى كى دبر ميں وطئ كى "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 1165 )ابن دقيق العيد نے الالمام ( 2 / 660 ) ميں اور علامہ البانى نے صحيح ترمذي ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

3 ـ خزيمہ بن ثابت رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" يقينا اللہ تعالى حق بيان كرنے سے نہيں شرماتا ـ يہ تين بار فرمايا ـ تو اپنى بيويوں كى دبر ميں وطئ مت كرو "

سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1924 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابن ماجہ ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

اس موضوع ميں احاديث بہت زيادہ ہيں، حتى كہ امام طحاوى رحمہ اللہ شرح معانى الآثار ( 3 / 43 ) ميں لكھتے ہيں اس سلسلہ ميں متواتر آثار وارد ہيں " انتہى

اسى ليے علماء كرام ان احاديث پر عمل كرنے كا كہتے ہيں.

مارودى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" كيونكہ يہ صحابہ كرام كا اجماع ہے: اسے على بن ابى طالب اور عبد اللہ بن عباس اور ابن مسعود اور ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہم سے روايت كيا گيا ہے " انتہى

ديكھيں: الحاوى ( 9 / 319 ).

اور المغنى ميں درج ہے كہ:

" اكثر اہل علم جن ميں على اور عبد اللہ اور ابو درداء اور ابن عباس اور عبد اللہ بن عمرو اور ابو ہريرہ رضى اللہ تعالى عنہم شامل ہيں كے قول كے مطابق بيوى كى دبر ميں وطئ كرنا حلال نہيں، اور سيعد بن مسيب اور ابو بكر بن عبد الرحمن اور مجاہد اور عكرمہ اور امام شافعى اور اصحاب الرائے اور ابن منذر رحمہم اللہ كا بھى يہى قول ہے "

ديكھيں: المغنى ( 7 / 32 ).

ہمارى ويب سائٹ پر اس كى كچھ تفصيل بيان كى گئى ہے اس كے ليے آپ سوال نمبر ( 1103 ) اور ( 52803 ) كے جوابات كا مطالعہ كريں.

دوم:

بعض لوگ يہ سمجھتے ہيں كہ بيوى كى دبر ميں وطئ كرنا جائز ہے، اور وہ درج ذيل فرمان بارى تعالى سے يہى سمجھتے ہيں:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں، تو تم اپنى كھيتيوں ميں جہاں سے چاہو آؤ البقرۃ ( 223 ).

اللہ سبحانہ و تعالى نے بيوى كے ساتھ سب كچھ حتى كہ دبر ميں وطئ بھى مباح كر دى ہے، اور ان كا يہ وہم اور بھى يقينى ہو جاتا ہے جب وہ صحيح بخارى كى روايت كردہ كو پڑھتے ہيں، لگتا ہے كہ سائل كا مقصد بھى يہى حديث ہے ـ جس ميں بيان ہوا ہے كہ:

جابر رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" يہودى كہا كرتے تھے كہ جب كوئى شخص اپنى بيوى سے پچھلى جانب سے جماع كرتا ہے تو بچہ ٹيڑھى آنكھ والا پيدا ہوتا ہے، تو اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ آيات نازل فرمائى:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں، تو تم اپنى كھيتيوں ميں جہاں سے چاہو آؤ .

ان كى يہ فہم اور سمجھ غلط ہے كہ بيوى كى دبر ميں وطئ كرنا حلال ہے، كيونكہ اللہ تعالى كا فرمان:

تم اپنى كھيتيوں ميں جہاں سے چاہو آؤ .

اس كا معنى ہے كہ جماع كى مختلف حالات مباح ہيں، ليكن شرط يہ ہے كہ جب جماع اور وطئ كھيتى والى جگہ ميں كيا جائے، اور وہ جگہ قبل ہے دبر نہيں، يعنى وہ جگہ جہاں سے بچہ پيدا ہوتا ہے پاخانے والے جگہ مراد نہيں ہے.

اس ليے خاوند بيوى كى پچھلى جانب سے يا پھر اگلى جانب سے جماع كرنا جائز ہے جبكہ وہ كھيتى والا جگہ ميں ہو نہ كہ دبر ميں.

اس كى دليل صحيح مسلم كى روايت جو جابر رضى اللہ تعالى عنہ كى سابقہ حديث ہے جس ميں اس آيت كا سبب نزول بيان كيا گيا ہے:

" اگر چاہے تو مجبيۃ يا غير مجبيۃ دونوں طرح ليكن ہو ايك ہى جگہ ميں "

مجبيۃ كا معنى يہ ہے كہ اپنے چہرے پر الٹ جس طرح سجدہ كى حالت ہوتى ہے.

اور ايك ہى جگہ يعنى يہ قبل اور بچہ پيدا ہونے والى جگہ ہے.

ديكھيں: صحيح مسلم حديث نمبر ( 1435 ).

اور ابو داود كى اسى حديث ميں ہے:

محمد بن منكدر سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں ميں نے جابر رضى اللہ تعالى عنہ سے سنا وہ بيان كر رہے تھے:

" يہودى كہا كرتے تھے كہ جب مرد اپنى بيوى سے فرج ميں پچھلى جانب سے جماع كرتا ہے تو بچہ بھينگا يعنى ٹيڑھى آنكھ والا پيدا ہوتا ہے، تو اللہ عزوجل نے يہ آيت نازل فرمائى:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں تم اپنى كھيتى ميں جہاں سے چاہو آؤ .

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2163 ).

اور سنن ترمذى ميں ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے مروى ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ عمر رضى اللہ تعالى عنہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے پاس تشريف لائے اور عرض كرنے لگے:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ميں تو تباہ و برباد ہوگيا!َ

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا: تمہيں كس چيز نے تباہ كر ديا ؟!

عمر رضى اللہ تعالى عنہ نے عرض كيا: ميں نے اپنى سوارى كو آج رات پھير ليا، ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے انہيں كوئى جواب نہيں ديا.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ تو پھر يہ آيت رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم پر نازل ہوئى:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں تو تم اپنى كھيتيوں ميں جہاں سے چاہو آؤ .

آگے سے آؤ يا پيچھے سے آؤ، اور دبر سے اجتناب كرو، اور حيض كى حالت ميں بھى اجتناب كرو "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 2980 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ترمذى ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

يہ مندرجہ بالا سب احاديث اس آيت كى مراد اور مقصود واضح كر رہى ہيں، اس ليے كسى بھى مسلمان شخص كے ليے جائز نہيں كہ وہ كسى ايسى فہم كى طرف جائے جس پر نہ تو كوئى حديث دلالت كرتى ہو اور نہ ہى لغت عرب.

ابن قيم رحمہ اللہ زاد المعاد ميں لكھتے ہيں:

" آيت دو وجہوں سے بيوى كى دبر ميں وطئ كرنے كى حرمت پر دلالت كرتى ہے.

پہلى وجہ:

يہاں كھيتى ميں آنا مباح كيا گيا ہے، اور يہ كھيتى بچہ والى جگہ ہے، نہ كہ وہ فحش جگہ جو گندگى والى ہے، اور پھر " من حيث امركم اللہ " كہ جہاں سے اللہ نے تمہيں حكم ديا ہے سے بھى مراد كھيتى والى جگہ ہے.

دوسرى وجہ:

اللہ تعالى كا فرمان ہے: جہاں سے چاہو .

يعنى جس طرف سے چاہو: چاہے اگلى جانب سے يا پچھلى جانب سے.

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ " تم اپنى كھيتى ميں آؤ " يعنى فرج اور قبل ميں " انتہى بتصرف.

ديكھيں: زاد المعاد ( 4 / 261 ).

سوم:

لگتا ہے كہ سائل نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كى درج ذيل حديث بھى مراد لى ہے جو بخارى نے روايت كي ہے كہ:

" تو تم اپنى كھيتوں ميں جہاں سے چاہو آؤ "

ان كا كہنا ہے كہ وہ بيوى كى .... ميں آئے

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فتح البارى ميں كہا ہے:

" سب نسخوں ميں ايسے ہى وارد ہے كہ ظرف كے بعد كا ذكر نہيں جو كہ مجرور ہے " انتہى

ديكھيں: فتح البارى ( 8 / 189 ).

پھر انہوں نے صحيح بخارى كے علاوہ دوسرى كتب ميں وارد روايات ذكر كى ہيں كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما نے فرمايا:

" وہ اس كى دبر ميں آئے "

اہل علم نے اس كے دو جواب ديے ہيں:

پہلا جواب:

ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كرنے والے كچھ روايوں سے غلطى ہوئى ہے، اور انہوں نے اس سے يہ سمجھا كہ دبر ميں وطئ كرنى جائز ہے، حالانكہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما تو پچھلى جانب سے بيوى كى قبل ميں وطئ كرنا بيان كيا كرتے تھے.

اس كى دليل وہ صحيح روايات ہيں جن ميں بيان ہوا ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما بيوى كى دبر ميں وطئ كرنے كو حرام سمجھتے تھے.

امام نسائى رحمہ اللہ نے السنن الكبرى ( 5 / 315 ) ميں صحيح سند كے ساتھ بيان كيا ہے كہ ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے اس كے متعلق دريافت كيا گيا تو انہوں نے تعجب سے فرمايا:

كيا كوئى مسلمان شخص ايسا بھى كرتا ہے ؟!

اور ابن قيم رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صحيح طور پر ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ثابت ہے كہ انہوں نے اس آيت كى تفسير ميں يہ كہا كہ:

دبر كى طرف سے فرج يعنى قبل ميں وطئ كرنا "

امام نافع رحمہ اللہ نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے يہى روايت كيا ہے، ليكن امام نافع رحمہ اللہ سے روايت كرنے والوں ميں سے غلطى كرنے والے نے غلطى كى اور اسے يہ وہم ہوا كہ دبر وطئ كى جگہ ہے نہ كہ فرج ميں وطئ كى راہ، تو راس طرح يہ چيز مشتبہ ہوگيا كہ دبر وطئ كرنے كى جگہ يعنى كھيتى كى طرف جانے كى راہ ہے، نہ دبر ميں وطئ كرنا.

اور اس طرح اشتباہ يہ ہوا كہ من كو فى كے معنى ميں سمجھ ليا تو اس طرح وہم پيدا ہوا " انتہى

ديكھيں: تھذيب السنن ( 6 / 142 ).

دوسرا جواب:

اس آيت كو سمجھنے ميں ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما كا اجتھاد ہے، اور پھر سنت نبويہ اور سب صحابہ كرام كے اقوال اس پر دلالت كرتے ہيں كہ يہ اجتھاد صحيح نہيں ہے.

ابو داود رحمہ اللہ نے ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كيا ہے كہ انہوں نے فرمايا:

" ابن عمر رضى اللہ عنہما ـ اللہ انہيں بخشے ـ كو وہم ہوا كہ انصار كا يہ قبيلہ ـ جو كہ بت پرست تھے ـ يہوديوں كے اس قبيلہ كو ـ جو كہ اہل كتاب تھے ـ انصار ان يہود كو علمى طور پر اپنے سے افضل سمجھتے تھے، اور بہت سارے افعال ميں ان كى اقتدا كرتے، اہل كتاب اپنى بيويوں كے پاس ايك ہى حالت ميں يعنى لٹا كر وطئ كرتے تھے، اور قريش والے عورتوں سے كھل كر جماع كرتے تھے، اور ان سے اگلى جانب سے يا پچھلى جانب سے اور لٹا كر پورى طرح لذت حاصل كرتے.

ليكن جب وہ ہجرت كر كے مدينہ آئے اور ايك مہاجر نے انصارى عورت سے شادى كى اور وہ اپنى عادت كے مطابق اس سے ہم بسترى كرنے لگا تو انصارى عورت نے انكار كيا، اور كہنے لگى:

ہمارے ہاں تو ايك طرف سے ہى ہم بسترى كى جاتى ہے اگر كرنا ہے تو ايسے ہى كرو، وگرنہ ميرے قريب مت آؤ، حتى كہ ان دونوں كا معاملہ عام ہوگيا اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كو اس كا علم ہوا تو اللہ سبحانہ و تعالى نے يہ آيت نازل فرمائى:

تمہارى بيوياں تمہارى كھيتياں ہيں، تم اپنى كھيتيوں ميں جہاں سے چاہو آؤ .

يعنى عورتوں كى اگلى جانب سے اور پچھلى جانب سے اور لٹا كر يعنى بچہ پيدا ہونے والى جگہ ميں ہى "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 2164 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح ابو داود ميں اسے حسن قرار ديا ہے.

تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ ہو سكتا ہے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما دبر ميں وطئ كے قائل ہوں، اور پھر جب ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما وغيرہ نے ان كے سامنے اس آيت كا سبب نزول اور اس كا صحيح معنى بيان كيا تو انہوں نے رجوع كر ليا ہو.

اسى ليے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے ثابت ہے كہ وہ بھى اسے حرام كہتے تھے جيسا كہ اوپر بيان ہوا ہے، اور آپ نے يہاں تك كہا كہ: كيا كوئى مسلمان شخص بھى ايسا كرتا ہے ؟!!

حاصل يہ ہوا كہ: ہمارى شريعت ميں يہ فعل حرام ہے اور شريعت اسلاميہ ميں كوئى ايسى دليل نہيں ملتى جو اس فعل كے جواز پر دلالت كرتى ہو، اور جو كوئى شخص بھى يہ گمان كرتا ہے كہ كتاب و سنت ميں كوئى ايسى دليل پائى جاتى ہے جو اس كے جواز پر دلالت كرتى ہے تو اسے وہم ہوا اور غلطى لگى ہے.

واللہ اعلم .

ماخذ: الاسلام سوال و جواب