الحمد للہ.
عورت كى نماز كى ہر حالت سجدہ اور بيٹھنے وغيرہ ميں بالكل مرد كى طرح ہى ہے، اس كے دلائل درج ذيل ہيں:
1 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:
" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
رواہ البخارى.
يہ خطاب مرد اور عورت سب كو شامل ہے.
علامہ البانى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى نماز كے طريقہ ميں جو كچھ بيان كيا گيا ہے اس ميں مرد اور عورت برابر ہيں، سنت نبويہ ميں كوئى بھى دليل نہيں ملتى جو يہ تقاضا كرتى ہو كہ اس ميں سے كچھ ميں عورتيں مستثنى ہيں بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان:
" تم نماز اس طرح ادا كرو جس طرح تم نے مجھے نماز ادا كرتے ہوئے ديكھا ہے "
عورتوں كو بھى شامل ہے. "
ديكھيں: صفۃ الصلاۃ النبى صلى اللہ عليہ وسلم صفحہ نمبر ( 189 ).
2 - رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا عمومى فرمان ہے:
" نہيں سوائے اس بات كہ عورتيں مردوں كى شقائق ہيں "
سنن ابو داود حديث نمبر ( 204 ) سنن ترمذى حديث نمبر ( 105 ) دونوں نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے اور مسند دارمى نے انس رضى اللہ تعالى عنہ سے روايت كي ہے حديث نمبر ( 764 ).
عجلونى كہتے ہيں:
ابن قطان كا كہنا ہے: يہ حديث عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كے طريق سے ضعيف ہے، اور انس رضى اللہ تعالى عنہ كى طريق سے صحيح.
ديكھيں: كشف الخفاء ( 1 / 248 ).
خطابى رحمہ اللہ كا كہنا ہے:
اس ميں فقاہت يہ ہے كہ: جب مذكر كے الفاظ سے خطاب كيا جائے تو يہ عورتوں كو بھى خطاب ہو گا، ليكن مخصوص جگہوں ميں جہاں تخصيص كى دليل مل جائے. اھـ
اور بعض علماء كرام كا كہنا ہے:
عورت مرد كى طرح نہيں بيٹھے گى، اس ميں انہوں نے دو ضعيف حديثوں سے استدلال كيا ہے:
امام بيھقى رحمہ اللہ كہتے ہيں:
اس مسئلہ ميں دو ضعيف حديثيں مروى ہيں اس طرح كى احاديث قابل حجت نہيں، وہ احاديث درج ذيل ہيں:
عطاء بن عجلان كى حديث جو انہوں نے ابو نضرۃ العبدى عن ابى سعيد خدرى رضى اللہ تعالى عنہ سے بيان كى ہے كہ:
" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مردوں كو اپنے سجدوں ميں كشادگى اور كھل سجدہ كرنے كا حكم ديتے، اور عورتوں كو حكم ديتے كہ وہ اپنے سجدوں ميں نيچى ہوا كريں، اور تشھد ميں مردوں كو باياں پاؤں بچھانے اور داياں كھڑا كرنے اور عورتوں كو چارزانو ہو كر بيٹھنے كا حكم ديتے "
حديث بيان كرنے كے بعد امام بيہقى رحمہ اللہ كہتے ہيں، يہ حديث منكر ہے. اھـ
اور دوسرى حديث درج ذيل ہے:
ابو مطيع الحكم بن عبد اللہ البلخى كى ہے جو انہوں نے عمر بن ذر عن مجاہد عن عبداللہ بن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے بيان كى ہے كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:
" جب نماز ميں عورت بيٹھے تو اپنى ايك ران دوسرى پر ركھے، اور جب سجدہ كرے تو اپنا پيٹ اپنى دونوں رانوں سے لگائے تو يہ اس كے ليے زيادہ ستر كا باعث ہے، اور اللہ تعالى اس كى طرف ديكھتا ہے تو فرماتا ہے اے ميرے فرشتو ميں تمہيں گواہ بنا كر كہتا ہوں ميں نے اس عورت كو بخش ديا"
سنن البيھقى الكبرى ( 2 / 222 ).
يہ حديث ضعيف ہے، كيونكہ يہ ابو مطيع البلخى كى روايت ہے، اس كے متعلق ابن حجر رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ابن معين كا كہنا ہے: ليس بشئ، اور مرہ نے اسے ضعيف كہا ہے، اور امام بخارى رحمہ اللہ كہتے ہيں يہ ضعيف اور صاحب الرائے ہے، اور امام نسائى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں: ضعيف ہے"
ديكھيں: لسان الميزان ( 2 / 334 ).
اور ابن عدى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
" اور ابو مطيع اپنى احاديث ميں بين الضعف ہے، اور عام طور اس كى روايت كى متابعت نہيں كى جائيگى.
ديكھيں: الكامل فى ضعفاء الرجال ( 2 / 214 ).
تيسرى حديث:
يزيد بن ابو حبيب بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز پڑھنے والى دو عورتوں كے پاس سے گزرے تو فرمانے لگے:
" جب تم سجدہ كرو تو اپنا گوشت زمين كے ساتھ ملا لينا؛ كيونكہ اس ميں عورت مرد كى طرح نہيں ہے "
اسے ابو داود نے مراسيل صفحہ نمبر ( 118 ) ميں اور امام بيہقى نے ( 2 / 223 ) ميں روايت كيا ہے.
اور يہ حديث مرسل ہے، جو كہ ضعيف كى ايك قسم ہے.
اور ابن ابو شيبہ نے مصنف ابن ابى شيبہ ميں ايك بعض سلف سے ايك اثر بيان كيا ہے جس ميں عورت اور مرد كى نماز ميں فرق بيان ہوا ہے.
ديكھيں: مصنف ابن ابى شيبہ ( 1 / 242 ).
ليكن دليل اور حجت تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كى كلام اور حديث ميں ہے.
پھر بعض سلف رحمہم اللہ سے نماز ميں مرد و عورت كى برابرى كے متعلق بھى روايات ہيں.
امام بخارى رحمہ اللہ تعالى كہتے ہيں:
ام درداء رحمہا اللہ نماز ميں مرد كى طرح ہى بيٹھا كرتى تھيں اور يہ فقيہ عورت تھيں.
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالى نے " فتح البارى " ميں بيان كيا ہے كہ:
ابو درداء رضى اللہ تعالى عنہ كى دو بيوياں تھيں، ان دونوں كو ام درداء كہا جاتا تھا، بڑى تو صحابيہ ہيں، اور چھوٹى تابعيہ، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اختيار يہ كيا ہے كہ يہاں امام بخارى كى كلام ميں چھوٹى مراد ہيں.
مزيد معلومات كے ليے آپ سوال نمبر ( 38162 ) كے جواب كا مطالعہ ضرور كريں.
واللہ اعلم .